Monday, September 23, 2019

مسیحی طلاق کے ریاستی قانون کی مخالفت کیوں؟



کافی عرصے کے بعد مسیحی سوشل ایشو پر لکھ رہی ہوں. ہر مسیحی رائیٹر یا نان رائیٹر کی وال پر یہی لکھا مل رہا ہے کہ بائبل کا قانون اٹل ہے سو اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنانا چاہئے.

اب ریاست پاکستان مسیحی طلاق کے قانون کو ریاستی قانون کے تحت بنانا چاہ رہی ہے کیونکہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ مسیحی طلاق کا مرحلہ کتنا کھٹن ہے.

کلیسیا نے کلیسائی سطح پر اس مسلے کو نپٹنے یا کم کرنے کے لیے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ سال میں شاید ایک بار کلیسیا میں اس موضوع پر کلام سنا دیا ہو گا کسی کلیسیا میں. اب جب ریاست نے اس مسلے میں دکھ اٹھانے والوں کے لیے قانون سازی کی تو سب اعتراض کرنے لگے ہیں.

میرا سوال یہ ہے کہ آپ عدالتی قوانین کو ٹھیک کرنے کی بجائے اپنا قبلہ کیوں درست نہیں کرتے؟ چرچز میں ایسی تعلیم کیوں نہیں دیتے کہ یہ نوبت ہی نہ آئے اور اگر آئے بھی تو چرچز میں ایسا نظام یعنی کونسلینگ وغیرہ کا نظام کیوں متعارف نہیں کرواتے؟ کیوں کلیسیا کو خاندان سمجھتے ہوئے اپنے مقدمے غیروں کو پاس لے کر جانے دیتے ہیں؟

مجھے ایوبی دور کی بنیادی جمہوریت کے کئی قانون بہت پسند ہیں اور انہیں میں سے ایک قانون طلاق کے بارے میں بھی تھا جس میں ضلح اور تحصیل کی سطح پر ایسے لوگوں کے لیے جو طلاق چاہتے تھے کونسلینگ کا نظام متعارف کروایا گیا تھا کہ مقدمہ عدالت میں جانے سے پہلے کونسلینگ کے مراحل میں سے گزرے. اور اس طرح بہت سے طلاق کے مقدمے یہی صلح پر حل ہو جایا کرتے تھے.

اب چرچ اپنی کمزوری پر واویلا مچانے کی بجائے اپنا تعلیم نظام درست کرے تو بہتر ہو گا. اور پلیز اس ریاستی قانون کو مسیحیت کے خلاف نہ سمجھیں. مسیحیت ایسے قانونوں کی وجہ سے ہرگز ختم ہونے والی نہیں.

تحرير:
شیزا نذیر




یہ بھی پڑھیے: 

منارٹيز ڈے پاکستان