Sunday, February 23, 2020

کروناوائريس بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں ’طبی ایمرجنسی‘ نافذ (Corona Virus)



ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

گذشتہ روز ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چار جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 18 ہو گئی تھی جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

صوبے میں محکمہ صحت نے گذشتہ ماہ سے اب تک ایران سے واپس آنے والے پاکستانی زائرین سے کہا ہے کہ وہ کھانسی اور بخار کی صورت میں فوری طور پر قریبی ہسپتال میں اپنا طبی معائنہ کرائیں۔

بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی معاونت سے تفتان شہر میں 100 بستروں پر مشتمل خیمہ ہسپتال قائم کیا جارہا ہے۔

اعلامیے کے مطابق تفتان بارڈر پر پہلے سے دو ڈاکٹر تعینات تھے جبکہ مزید سات ڈاکٹر آٹھ تھرمل گنز کے ساتھ تفتان پہنچ گئے ہیں جو ایران سے آنے والے زائرین اور دیگر مسافروں کی سکریننگ کریں گے جبکہ اسلام آباد سے این آئی ایچ کی ٹیمیں بھی تفتان پہنچ رہی ہیں جو طبی عملے کو تربیت دیں گی۔

بلوچستان کی ایران سے متصل سرحد پر کتنے اضلاع ہیں؟

کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق صوبہ بلوچستان کی ایران سے متصل اضلاع کی تعداد پانچ ہے۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔

تاہم ان تمام اضلاع میں سے ایران اور صوبہ بلوچستان کے درمیان سب سے زیادہ آمد ورفت ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان سے ہوتی ہے۔

تفتان جہاں قانونی طور پر ایران سے تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے وہیں ایران جانے والے پاکستانی زائرین کی آمد ورفت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔

ایران کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘
ایران میں ہونے والی ان ہلاکتوں کے بعد گذشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کا ایک اہم بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’یہ امکان کہ اس وائرس پر قابو پا لیا جائے گا ’کم‘ ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ بہت سے کیسز کا براہ راست اس مرض سے کوئی واضح تعلق نظر نہیں آتا جیسا کہ ٹریول ہسٹری یا تصدیق شدہ کیسز کی تاریخ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران میں ہونے والی اموات اور انفیکشن کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘ ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں سامنے آنے والے کیسز کا مرکز مقدس شہر قم ہے۔ یہ دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع ہے جو کہ خطے میں شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

ایران نے جمعہ کو قم میں مزید دو ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی اس سے قبل جمعرات کو بھی دو ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ادھر ایرانی محکمہ صحت کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ایران کے تمام شہروں میں پہلے سے موجود تھا۔

بلوچستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات
ایران سے منسلک سرحدی علاقوں میں طبی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا آغاز کردیا گیا ہے۔

سرکاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تفتان میں ایمرجنسی سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔

اس تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس پر انھوں نے وائرس کی روک تھام اور سکریننگ کی سہولیات کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

اس سے قبل صوبہ بلوچستان میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث متعدد شہروں میں کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان میں کورونا وائرس کی مجموعی طور پر مانیٹرنگ اور اس کی روک تھام کے لیے 14 رکنی تکنیکی کمیٹی بنائی گئی تھی اور ان علاقوں کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی گئی تھی جہاں چینی باشندے موجود ہیں۔

ان علاقوں میں گوادر کے علاوہ ضلع چاغی میں سیندک اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا علاقہ دودڑھ شامل ہیں۔

گوادر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تین مراکز قائم کیے گئے جبکہ صحت کے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ایچ او نے خصوصی کٹس بھی فراہم کیں۔

خیال رہے کہ گوادر سمیت بلوچستان میں تاحال کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

Monday, February 17, 2020

نظام آف حیدرآباد کے35 ملین پاؤنڈ میں سے ورثا اور انڈیا کو حصہ مل گیا



لندن کی رائل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے بعد نظام آف حیدرآباد اور انڈیا کے درمیان 35 ملین پاؤنڈ کی رقم تقسیم کر دی گئی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کے مطابق نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے وکلا اور لندن میں انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان کی جانب سے کیس پر لگنے والی قانونی فیس کا پینسٹھ پینسٹھ فیصد بھی ادا کیا گیا ہے جس کی مد میں ہائی کمیشن کے مطابق انھیں ’پاکستان نے 2.8 ملین پاؤنڈ ادا کیے ہیں‘۔

تاہم انڈین سفارتی ذرائع نے 35 ملین پاونڈز میں سے ملنے والی رقم کو ضیغہ راز قرار دیتے ہوئے رقم بتانے سے انکار کیا ہے۔

انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے تمام فریقین نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور آخر کار اس طویل قانونی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور اب لوگ آگے بڑھ سکیں گے۔

آٹھویں نظام کے ورثا کے وکلا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں رقم میں سے اپنا حصہ اور 65 فیصد قانونی اخراجات عدالت کے ذریعے مل گئے ہیں اور وہ بہت خوش ہیں کہ اب یہ معاملہ اختتام کو پہنچا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس رقم کی انڈیا کے ساتھ تقسیم پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ خفیہ معاملہ ہے۔

اکتوبر 2019 کے فیصلے میں کیاکہا گیا تھا

لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس نے متحدہ ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان صدیقی کے وزیرِ خزانہ کی جانب سے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی رقم پر پاکستان کا دعویٰ رد کر دیا تھا۔

عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 71 برس قبل جو رقم جمع کروائی گئی تھی اس پر نظام کے ورثا مکرم جاہ، مفرخ جاہ اور انڈیا کا حق ہے۔

10 لاکھ پاؤنڈ کی یہ رقم ریاست کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے سنہ 1948 میں جمع کروائی تھی اور اس میں آج 35 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے لندن بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردہ 10 لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 89 کروڑ روپے) اب ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ (تقریبا 1۔3 ارب روپے) ہو چکے ہیں اور انھی کے نام پر ان کے نیٹ ویسٹ بینک اکاؤنٹ میں جمع تھے۔

ان پیسوں کے لیے نظام اور پاکستانی ہائی کمشنر کے جانشینوں کے مابین کشیدگی رہی ہے اور یہ کیس لندن میں زیر سماعت تھا۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس مارکس سمتھ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ کی اس رقم پر پاکستان کا حق نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ساتویں نظام آف دکن اس رقم کے اصل مالک تھے اور شہزادے اور انڈیا جو کہ نظام کے نام پر اس حق کا دعویٰ کر رہے ہیں اس رقم کی وصولی کے حقدار ہیں۔

فیصلے کے مطابق رقم کی منتقلی کے حوالے سے فریقین کو مناسب انتظام کرنا تھا جس کی منظوری عدالت نے دینی تھی۔

عدالت کا کہنا ہے تھا کہ پاکستان کی جانب سے عدالت کے اس معاملے پر فیصلہ کرنے کا مجاز نہ ہونے اور معاملے کے غیرقانونی ہونے کی بنیاد پر فیصلے کے اطلاق نہ ہونے کے دعوے درست نہیں تھے۔

فیصلے پر نظام کے ورثا اور پاکستان کا ردعمل

نظام آف حیدرآباد کے ورثا کی جانب سے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھیں ایک عرصے سے اس فیصلے کا انتظار تھا اور وہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ برطانوی ہائی کورٹ نے پاکستان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، انڈیا اور ساتویں نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے حق میں فیصلہ دے کر ’درست کام کیا ہے‘۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ فیصلے میں رقم کی منتقلی کے تاریخی پس منظر کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔

بیان کے مطابق انڈیا نے حیدرآباد کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ساتھ شامل کیا تھا اور اسی وجہ سے نظام آف حیدرآباد کو اپنی ریاست اور عوام کو انڈین دراندازی سے تحفظ دینے کے لیے یہ اقدامات کیے گئے تھے۔

پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد قانونی مشوروں کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

بی بی سی کی گگن سبروال نے ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین جاری اس قانونی لڑائی اور رقم کی منتقلی کی کہانی جاننے کی کوشش کی ہے۔

ریاست حیدرآباد کے ہندوستان سے الحاق کی کہانی

15 اگست سنہ 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا لیکن جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سمیت متعدد ریاستوں نے اس دن آزادی کا ذائقہ نھیں چکھا۔

حیدرآباد 17 ستمبر 1948 تک نظام شاہی کے تحت آزاد ریاست کے طور پر برقرار رہا۔ اس کے بعد اس شاہی ریاست کو 'آپریشن پولو' نام کے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ہندوستان میں ضم کر لیا گیا۔

10 لاکھ پاؤنڈ کی منتقلی کی یہ کہانی حیدرآباد کے ہندوستان میں ضم ہونے کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

اس وقت حیدرآباد آصف جاہ خاندان کی ساتویں پشت نواب میر عثمان علی خان صدیقی کی ریاست تھی۔ اس وقت وہ دنیا کے سب سے امیر شخص سمجھے جاتے تھے۔

ساتویں نظام کے پوتے شہزادہ مکرم جاہ کی نمائندگی کرنے والے قانونی ادارے ویدرز ورلڈ وائڈ لا فرم کے پول ہیوٹ کا کہنا ہے کہ 'آپریشن پولو کے دوران، حیدرآباد ریاست کے نظام کے وزیر خزانہ نے ان کی رقم کو محفوظ رکھنے کے ارادے سے تقریباً دس لاکھ پاؤنڈ اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر کے لندن کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔'

سنہ 1948 میں منتقل کی جانے والی یہی رقم بعد میں ساتویں نظام اور پاکستان کے جانشینوں کے مابین قانونی جنگ کی وجہ بنی۔

رقم واپس حاصل کرنے کی جنگ

پال ہیوٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'جیسے ہی حیدرآباد کے ساتویں نظام کو رقم کی منتقلی کے بارے میں معلوم ہوا انھوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ جلد ہی انھیں ان کا پیسہ واپس کر دے۔ لیکن رحمت اللہ نے رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب یہ پاکستان کی پراپرٹی ہے۔'

اس کے بعد 1954 میں ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین ایک قانونی جنگ شروع ہوگئی۔ نظام نے اپنے پیسے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور قانونی عمل شروع کر دیا۔

ہائی کورٹ میں کیس پاکستان کے حق میں چلا گیا اور اس کے بعد نظام کو اپیل عدالتوں میں جانا پڑا جہاں جیت نظام کے حق میں ہوئی۔

لیکن اس کے بعد پاکستان نے آگے بڑھ کر برطانیہ کی اس وقت کی اعلیٰ ترین عدالت ہاؤس آف لارڈز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ نظام پاکستان پر مقدمہ نھیں چلا سکتا کیونکہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔

ہاؤس آف لارڈز نے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا اور اس دلیل کو قبول کیا کہ نظام پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نھیں کرسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز نے اس متنازع رقم یعنی دس لاکھ پاؤنڈ کو منجمد کرا دیا۔

اس وقت سے پاکستان ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی رقم نیٹ ویسٹ بینک کے پاس ہے۔ بینک کے مطابق یہ رقم اب عدالت کے فیصلے کے بعد صرف صحیح وارث کو دی جاسکتی ہے۔

لیکن گذشتہ 60 سالوں میں سود کی رقم میں اضافہ سے 1948 میں جو رقم دس لاکھ پاؤنڈ تھی وہ اب ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ ہوچکی ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نھیں ہوا۔

حکومت ہند بھی اس معاملے میں ایک فریق ہے

حیدرآباد کے ساتویں نظام کا 1967 میں انتقال ہو گیا۔ لیکن رقم واپس حاصل کرنے کی یہ قانونی جنگ اس کے بعد بھی جاری رہی اور ان کے جانشینوں نے اسے آگے بڑھایا۔

اس قانونی لڑائی میں 2013 میں پال ہیوٹ اس وقت شامل ہو گئے جب پاکستانی ہائی کمشنر نے پاکستان کے لیے رقم نکالنے کے لیے بینک کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔

اس کے بعد بینک اس بات کا پابند ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں اس رقم کا دعویٰ کرنے والے تمام متعلقہ فریقوں سے بات کرے جس میں ہندوستان سمیت نظام سلطنت کے دونوں شہزادے بھی شامل تھے۔

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ دونوں شہزادوں نے حال ہی میں ہندوستانی حکومت سے اس مسئلے پر بات چیت کی ہے جس نے ایک بار اس رقم پر اپنا دعویٰ بھی پیش کیا تھا۔

اب تک نظام کے جانشینوں اور ہندوستانی حکومت کے مابین گفتگو یا معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات سامنے نھیں آئیں۔

بی بی سی نے نظام کے جانشینوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

پاکستان کے دلائل

نظام کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آپریشن پولو کے دوران یہ رقم پاکستانی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔

جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ حیدرآباد کے 1948 میں انڈیا میں ضم ہونے کے دوران پاکستان نے سابق نظام کی بہت مدد کی تھی۔ یہ رقم سابقہ نظام نے اسی امداد کے بدلے پاکستانی عوام کو بطور تحفہ دی تھی اور اسی وجہ سے اس پر پاکستان کا حق ہے۔

پال ہیوٹ نے کہا: 'سنہ 2016 میں پاکستان کا موقف تھا کہ 1947 سے 48 کے درمیان پاکستان سے اسلحہ حیدر آباد لایا گیا تھا جس کی قیمت دس لاکھ پاؤنڈ تھی۔

'پاکستان نے اب تک اس معاملے میں دو دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے کہا کہ یہ رقم نظام کی جانب سے پاکستان کو تحفے کے طور پر دی گئی اور بعد میں کہا کہ یہ رقم اسلحہ کی خریداری کے بدلے منتقل کی گئی تھی۔ نظام کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ پاکستان نے دونوں دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نھیں کیا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بہت متضاد ہیں۔'

پاکستان کی جانب سے اس کیس کی نمائندگی کرنے والے کوئینز کونسل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اس معاملے پر بات نھیں کرنا چاہتے ہیں۔

بی بی سی کے پاس پاکستان سے جمع کرائے گئے دلائل کی ایک کاپی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق: 'حیدرآباد کے ساتویں نظام کی پاکستان نے مدد کی تھی اور اس کے بدلے میں رحمت اللہ کے بینک اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی گئی تھی تاکہ اس رقم کو ہندوستان کے ہاتھوں سے دور رکھا جاسکے۔

'پاکستان نے ساتویں نظام کے لیے پاکستان سے اسلحہ فراہم کیا تھا تاکہ حیدرآباد ہندوستانی حملے سے خود کو بچاسکیں۔'

اس دستاویز کے مطابق 20 ستمبر 1948 سے یہ رقم رحیم اللہ کے لندن میں مقیم بینک اکاؤنٹ میں محفوظ ہے۔

میں نے پال ہیوٹ سے سوال کیا کہ آیا اس رقم کی منتقلی سے قبل دونوں فریقوں کے مابین کوئی تحریری معاہدہ نھیں ہوا تھا تو ہیوٹ کا کہنا تھا کہ 'ساتویں نظام نے ایک حلف نامہ دیا ہے کہ انھیں اس منتقلی کا کوئی علم نھیں تھا۔'

'اس ثبوت کو اب تک چیلنج نھیں کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ان کے وزیر خزانہ کو یہ لگا کہ وہ نظام کے مستقبل کے لیے کچھ رقم حاصل کررہے ہیں اور اس معاہدے کی بنا پر رحمت اللہ نے اپنے اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کے لیے قبول کر لیا۔'

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ 'جب ساتویں نظام کو یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ اپنی زندگی میں یہ رقم واپس حاصل نھیں کر پائیں گے تو انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ انھوں نے اس رقم کو اپنے ٹرسٹ میں شامل کیا اور دو ٹرسٹی مقرر کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان کے بعد ان کے جانشین ان کے دو پوتے آٹھویں نظام اور ان کے چھوٹے بھائی ہوں گے۔ اس لیے اب اس خاندانی سلسلے کے یہی دو لوگ ہیں جو اس پیسے کے حقدار ہوں گے۔'

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ اور تاریخی معاملہ ہے جس سے وہ براہ راست منسلک ہیں۔

بی بی سی تیلگو سروس کی نمائندہ دیپتی باتھینی نے کچھ عرصہ قبل دکن ہیریٹیج سوسائٹی کے سربراہ محمد صفی اللہ سے اس معاملے کے بارے میں بات کی تھی۔

محمد صفی اللہ کا کہنا ہے کہ 1948 میں 13 ستمبر سے 17 ستمبر تک ہندوستانی حکومت نے آپریشن پولو کیا تھا جو حیدرآباد کی ریاست کے خلاف مکمل طور پر ایک فوجی آپریشن تھا۔ اس مہم میں ہندوستانی فوج کے قریب 40 ہزار فوجی شامل تھے۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کیا اور اس کے بعد ہندوستانی یونین میں شامل ہونے پر راضی ہو گیا۔

صفی اللہ کا خیال ہے کہ 350 لاکھ پاؤنڈ کی اس پوری رقم کو تین فریقوں حکومت ہند، نظام کے جانشین اور پاکستان میں برابر برابر تقسیم کر دینا چاہیے۔

'شاید اس مسئلے کا یہ حل سب کے لیے قابل قبول ہو!'

Thursday, February 6, 2020

انڈیا میں محمد علی جناح کا اتنا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟


تحرير: سہيل حليم


انڈیا میں آجکل محمد علی جناح کا جتنا ذکر ہو رہا ہے شاید پاکستان میں بھی نہیں ہوتا ہوگا۔

کوئی کہہ رہا ہے کہ بانی پاکستان یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں گے کہ ہندوستان جس راہ پر چل رہا ہے جلدی ہی اس کی ملاقات پاکستان سے ہو جائے گی اور تقسیم کے وقت دونوں بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہوکر بھلے ہی الگ الگ راستوں پر نکل پڑے ہوں لیکن اب لگتا ہے کہ انجام کار ستر سال کے لمبے اور دشوار گزار سفر کے بعد ایک ہی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

اور تب شاید پاکستان مڑ کر انڈیا سے کہے گا کہ بھائی اگر یہیں آنا تھا تو الگ ہی کیوں ہوئے، ساتھ ہی چل پڑتے ؟ اور اگر "جی پی ایس" استعمال کیا ہوتا تو یہاں وہاں بھٹکنے میں اتنا وقت برباد نہ ہوتا، سیدھے منزل پر پہنچتے!

کوئی کہہ رہا ہے کہ حکمراں بی جے پی شہریت کا جو نیا قانون وضع کر رہی ہے اس سے جناح کا دو قومی نظریہ درست ثابت ہوجائے گا، یہ گاندھی کے مقابلے میں جناح کے نظریے کی جیت ہوگی۔ جناح اور پاکستان کا ذکر ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔

وزیراعظم مودی اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ انہوں نے پھر لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ کانگریس پاکستان کی زبان بول رہی ہے اور جواب میں کانگریس کے لیڈر ششی تھرور کا کہنا ہے کہ مسٹر مودی کی حکومت نہ صرف پاکستان کی طرح بات کرتی ہے بلکہ اسی کے نقش قدم پر چلتی بھی ہے اور سوچتی بھی ہے!

بھائی، خون تو ایک ہی ہے! چہرہ مہرہ، وہ بول چال کا انداز، وہ طور طریقے؟ آپ کتنی بھی کوشش کرلیں کچھ چیزیں نہیں بدلا کرتیں۔

بہرحال، شہریت کے قانون میں معمولی سی ترمیم کی جارہی ہے، کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے کہ جس پر اتنا ہنگامہ کیا جائے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ اگر آپ ہندو، سکھ، مسیحی، جین، بودھ یا پارسی ہیں اور آپ نے پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لی ہے تو آپ کو ہندوستان کی شہریت دے دی جائے گی کیونکہ حکومت یہ مانتی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے ہیں تو آپ کو آپ کے مذہب کی وجہ سے ستایا گیا ہوگا، ورنہ کون اپنا گھر بار چھوڑ کر یوں در بدر ٹھوکریں کھاتا ہے؟

اور اگر آپ روزگار کی تلاش میں یہاں آتے تھے تو خاموش ہی رہیے گا کیونکہ نئے مجوزہ قانون میں یہ خانہ شامل نھیں ہے، ایسا نہ ہو کہ زبردستی ایمانداری دکھانے کے چکر میں الٹا پھنس جائیں۔ بہت سے لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جو لوگ چالیس پچاس سال پہلے بنلگہ دیش (یا اس سے پہلے مشرقی پاکستان) کی سرحد پار کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں آکر بس گئے تھے، وہ یہ کیسے ثات کریں گے کہ انہیں ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا تھا؟ اس لیے بس جو حکومت کہہ رہی ہے کرتے رہیے۔

اگر آپ مسلمان ہیں اور غلطی سے یہاں پہنچ گئے تھے تو آپ کو عزت کے ساتھ گھر واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے گا۔ اگر پڑوسی ملک واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر بات ذرا پیچیدہ ہوجاتی ہے لیکن ان پیچیدگیوں کے بارے میں آپ کو گھر چھوڑنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔

اور اگر آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہم تو پچاس سال سے یہاں رہتے ہیں، بچے بھی یہیں پیدا ہوئے ہیں اور سوچا تھا کہ مریں گے بھی یہیں، تو یا تو پچاس برسوں میں آپ کے حالات زندگی بدل چکے ہوں گے اور آپ کو واپس جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر حالات نہیں بدلے ہیں تو آپ کو ویسے بھی کہیں اور جاکر ٹرائی کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چاہیے۔

جہاں تک شہریوں کے قومی رجسٹر کا سوال ہے، اس میں ان تمام لوگوں کو شامل کیا جائے گا جو اپنی شہریت ثابت کر پائیں گے، جو نہیں کر پائیں گے لیکن مسلمان نہیں ہوں گے انہیں نئے قانون کے تحت شہریت دے دی جائے۔ جو ثابت نہیں کر پائیں گے لیکن مسلمان ہوں گے۔۔۔ اف! یہ اکوئیشن بہت الجھی ہوئی ہے، وہ بھی کسی نہ کسی فہرست میں شامل ہوں گے لیکن فی الحال کہنا مشکل ہے کہ کونسی۔

پارلیمان میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ اگر کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہ کیا ہوتا تو اس قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

لیکن اگر ملک تقسیم نہ ہوا ہوتا تو اس کی آبادی بھی تقسیم نہ ہوتی اور اس کے کچھ فائدے بھی ہوتے اور نقصان بھی۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ انڈیا اور پاکستان ایک ہی ملک ہوتے اس لیے ان میں آپس میں جنگیں نہ ہوتیں، کشمیر پر کوئی تنازع نہ ہوتا اور اسے ’مرکز کے زیر انتظام علاقہ‘ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی، آئی ایس آئی اور را ایک ہی ہوتے، یہ فیصلہ نہ کرنا پڑتا کہ عمران خان زیادہ بڑے آل راؤنڈر تھے یا کپل دیو، دونوں ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوتے اور ٹی وی چینلوں کے پاس زیادہ کام نہ ہوتا۔

(اور عمران خان کبھی پاکستان کے وزیر اعظم نہ بن پاتے، لیکن کچھ لوگ اس بات کو فائدہ میں ڈالیں گے اور کچھ نقصان میں، اس لیے اسے بیچ میں ڈال دیتے ہیں)

نقصان یہ ہوتا کہ بی جے پی کے رہمنا بات بات پر کچھ لوگوں کو پاکستان جانے کا مشورہ نہ دے پاتے، لال کرشن اڈوانی نے کراچی جاکر جناح کو سیکولر نہ بتایا ہوتا اور اس کے بعد گھر نہ بٹھائے گئے ہوتے اور شاید وہ ’سیاسی سپیس‘ خالی ہی نہ ہوتی جو نریندر مودی نے پر کی ہے، اور اگر نریندر مودی وزیر اعظم نہ بنتے تو امت شاہ وزیر داخلہ کیسے بنتے؟ تو شاید پارلیمان میں یہ بل بھی پیش نہ ہوتا۔

تو امت شاہ صاحب، اس بحث کا کوی فائدہ نہیں، یہ مرغی اور انڈے کی بحث ہے، کبھی ختم نہیں ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ جو لوگ کسی بھی مشکل میں، چاہے پیسہ کمانے یا پھر جان بچا کر، یا پھر آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟

چھوڑ دیا جائے یا بھگا دیا جائے؟

ہماری مانیں تو چھوڑ دیجیے، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے چاہے آپ کی کتنی بھی دوستی یا دشمنی ہو، وہ کسی بھی مذہب کا ایک بھی فرد لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جو لوگ انڈیا میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد یہاں کی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت پر کیا دعوی کریں گے؟ تو پھر آپ انہیں حراستی مراکز میں رکھیں گے اور آخرکار کبھی نہ کبھی چھوڑ ہی دیں اور اگر چھوڑنا ہی ہے تو پکڑنے کا کیا فائدہ؟

غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر ان لوگوں نے اتنا وقت اگر امریکہ میں بھی گزارا ہوتا تو کب کے شہری بن گئے ہوتے!

Friday, January 24, 2020

پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مشتبہ کیس، چینی شہری ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ منتقل



ملتان: (دنیا نیوز) ملتان میں کرونا وائرس کے شبے میں چینی شہری کو نشتر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، مریض کے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیئے گئے۔

40 سالہ فینگ فین ملتان میں انڈسٹریل اسٹیٹ پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جبکہ چند روز قبل ہی چائنا کے شہر ووہان سے واپس لوٹا ہے جسے کرونا وائرس کے شبے میں نشتر ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیئے گئے ہیں۔

Thursday, November 14, 2019

کاش! ھم ریاست مدینہ کے شہری ھوتے




تحرير: لعزراللہ رکھا ۔ ايڈوکيٹ

آر پی او افس بہاولپور میں ایک بڑے فریم میں قرآن پاک کی ایک آیت آویزاں ھے جس کا اردو ترجمہ اور مہفوم یوں ھے(اگر کوٸی لفظ اوپر نیچے ھو جاۓ تو معاف کیجۓ گا) کہ حضرت مُحَمَّد ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم پر ظلم کیا تو قیامت کے روز آپ مُحَمَّد ﷺ اس ظالم مسلمان کے مقابلہ میں مظلوم غیر مسلم کی طرف کھڑے ھونگے،اسلام کا فلسفہ انصاف سمجھنے کے لیۓ مکمل غیر جانبدار اپروچ ضروری ھے کیونکہ ھم اسلام کو موجودہ دور کے واقعات،مولانا حضرات کی ذاتی تشریح اور اپنی ناگفتہ بہ حالت کے تناظر میں دیکھ کر ایک جانبدار سوچ کے حامل ھوجاتے ھیں جس سے ھم اسلامی تعلیمات کے اصل جوھر سے ناواقف رھتے ھیں موجودہ دور میں یہ سچ ھے کہ ھماری عدالتیں مذھبی کیسز میں جانبداری کا مظاھرہ کرتی ھیں،مذھبی اور حساس نوعیت کے کسیز پر جج کے مذہبی جذبات غالب رھتے ھیں۔

حکومت اور ادارے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز کرتے ھیں اقلیتوں کے قیمتی ادارے چھین لیۓ جاتے ھیں، جرم ثابت ھونے سے قبل ھی ملزم قتل کر دیے جاتے ھیں نابالغ بچیوں کو مذھب کی بھینٹ چڑھا کر ھوس پرستی کی جاتی ھے غرضیکہ مذھب اور مسلک کے نام پر عجیب و غریب قسم کے فتوے اور فیصلے ھوتے ھیں جن کا اصل اسلام سے کوٸی تعلق نہیں ھے مدینہ طرز کی ریاست میں قاضی حاکم وقت کے خلاف فیصلے دیتے نظر آتے ھیں

 حضور پاکﷺ یہودی (غیر مسلم) بچی کا سر ڈھانپتے نظر آتے ھیں،قاضی کی عدالت میں مسلمان کے مقابلے میں غیر مسلم مقدمہ جیتتے نظر آتے ھیں۔ جرم ثابت کرنے کے لیے کم از کم دو متقی اور پرھیز گار غیر جانبدار گواھان ضروری ھیں، جرم ثابت ھونے سے قبل کسی کو قتل نہیں کیا جاۓ گا جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا ،غیر مسلم شہریوں کے عقائد، مذہبی مقامات کے تحفظ کا وعدہ نظر آتا ھے ،معاھدہ سینٹ کیتھراٸن نظر آتا ھے جس پر حضور ﷺ اپنے دست مبارک کی مہر کرتے ھیں کہ تاقیامت مسلمان اس معاہدہ کی پاسداری کریں گے ۔انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے تھے آج ایک غریب بے بس اور مجبور بچو رام کے بارہ سالہ بیٹے موھن رام کو جبری عبدالرحمنٰ بنا دیا جاتا ھے اور کوٸی عدالت اس غریب کی فریاد سننے اور انصاف کرنے کو تیار نہیں سب کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ھیں عدالتیں بھی اور حکومتیں بھی ۔مدینہ طرز کی ریاست قاٸم کرنا بذدلوں اور مصلحت پسندوں کے بس کی بات نہیں،ریاست مدینہ کے تمام شہریوں کو بلاتفریق خالص انصاف میسر تھا، کاش ھم بھی بحثیت غیر مسلم مسیحی ریاست مدینہ کے شہری ھوتے،تاکہ ھماری عزت، جان مال اور ادارے بھی محفوظ ھوتے.

Sunday, November 10, 2019

"شفاٸیہ دُعا اچھی بات ھے"علاج بھی کرواٸیے“

 


تحرير: لعذراللہ رکھا ایڈووکيٹ 


آجکل خدا کے تقریباً ھر خادم کے پاس شفا کی نعمت ھے اور ھر دعاٸیہ اجتماح میں بیماروں لاچاروں لنگڑے لولے کینسر دل کے مریض ناکارہ گردوں ھیپا ٹاٸٹیس اے بی سی بلڈ پریشر شوگر بھانجھ پن غرضیکہ ھمہ قسم کی بیماریوں کے لیے خصوصی شفاٸیہ عبادت ھوتی ھے اور ان موضی امراض سے شفایاب ھونے والے لوگوں کی ٹی وی پر گواہیاں بھی دلاٸی جاتی ھیں.

مختلف قسم کی پراثر گواہیاں سن کر دل باغ باغ ھوجاتاھے متمہ نظر مذھبی لوگوں پر تنقید کرنا نہیں فروغ شعور ھے مثال کے طور پر اگر پادری صاحب ایک اسٹیڈیم میں اعلان کریں کینسر کے مریض سامنے آجاٸیں ھم ان کے لیۓ دعا کریں گے دعا کے ساتھ پادری صاحب دوسرا اعلان یہ کریں کہ جتنے لوگ اس بیمار بھاٸی بہن کے علاج کے لیۓ ھدیہ دینا چاھیں اور جو ھدیہ جمع ھو اس سے بیمار بھاٸی بہن کا علاج کرواٸیں اور دعا جاری رکھیں کے جوبھی ڈاکٹر اس مریض کا علاج کرے خدا اس کے ھاتھوں کو برکت دے تو یقین جانیں اس مریض کو خداوند نے ھی شفا دینی ھے وسیلہ پادری صاحب بنیں گے.

جو کام خدا کے خادم کا ھے وہ خدا کا خادم کرے اور جو کام ڈاکٹر کا وہ ڈاکٹر کو کرنے دیجۓ کیونکہ ڈاکٹر کے ھاتھ میں بھی شفا خدا ھی نے رکھی ھے یقین جانیۓ جب غربت کے مارے ھوۓ لوگ ادھار کرایہ مانگ کر دوا لینے کی بجاۓ شفاٸیہ عبادت میں ایک امید لیکر جاتے ھیں اور واپس آکر دواٸی بھی چھوڑ دیتے ھیں تو جلد ھی یہ شفا بانٹنے والے خادم ان کے خاندان کو تسلی دیتے نظر آتے ھیں کہ” بھاٸی جی جو خدا کی مرضی“ خدا کی مرضی اس میں ھے کہ کوٸی مریض غربت کی وجہ سے بے علاج نہ رھے اگر پولیو ویکسین ایجاد کرنے والا ساٸنسدان اسی سوچ کے تابع ھوتا جس کے تابع آج خدا کے خادم ھیں تو آج پولیو کی وجہ سے لاکھوں بچے معذور ھوتے،

Tuesday, October 29, 2019

بلوچستان يونيورسٹی: لرزہ دينے والے انکشاف



تحرير: محمد کاظم

پاکستان میں صوبہ بلوچستان کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں ہراسانی کے حوالے سے جو دعوے سامنے آئے ہیں وہ خدا کرے کہ درست نہ ہوں کیونکہ اگر وہ درست ہوئے تو پھر ہم اس قابل نہیں کہ انسان کہلوائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ 'اے گریڈ چاہیے یا فیل ہونا ہے، سکالر شپ پر آسٹریلیا جانا ہے یا امریکہ جانا ہے یا کہیں نہیں جانا۔'

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم سب نے مل کر دو کام کرنے ہیں ایک یہ کہ یونیورسٹی کی ساکھ بحال ہواور دوسرا یہ کہ جو لوگ ہراسانی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

یہ ریمارکس انھوں نے یونیورسٹی میں طالبات کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم دو رکنی ڈویژنل بینچ نے کی۔

سماعت کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کے پارلیمانی کمیٹی کے اراکین، یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر محمد انور پانیزئی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نمائندوں کے علاوہ وکلا کی بہت بڑی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے کے حکام نے ایک مرتبہ پھر یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں کے استعمال کے حوالے سے ایک رپورٹ اس درخواست کے ساتھ پیش کی کہ تحقیقات مکمل ہونے تک اسے افشاں نہ کیا جائے، تاہم چیف جسٹس نے ایف آئی اے کی رپورٹ سے بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو آگاہ کرنے کے لیے انھیں اپنے چیمبر میں طلب کیا۔

قائم مقام وائس چانسلر کی بے بسی

سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے قائم مقام وائس چانسلر سے کہا کہ وہ قانون کی مطابق کارروائی کریں تو وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہے۔

چیف جسٹس نے انھیں کہا کہ قانون کے تحت انہیں ہراسانی سے متعلق معاملات کی تحقیقات اور اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار ہے۔

انھوں نے وائس چانسلر کو کہا کہ اگر وہ قانونی کے مطابق کارروائی نہیں کر سکتے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔

بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے کیا کہا؟

بلوچستان اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین چیئر پرسن مہ جبین شیران کی قیادت میں پیش ہوئے۔

چیئر پرسن نے کہا کہ انہیں ہراسانی کے حوالے سے بہت ساری شکایتیں فون اور واٹس ایپ پر موصول ہوئیں لیکن متائثرین میں سے تاحال کوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا۔

کمیٹی کے رکن ثنا بلوچ نے کہا کہ یونیورسٹی میں بڑی تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں لیکن ان کو استعمال کے حوالے سے کوئی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں جو لوگ سکیورٹی یا سی سی ٹی وی کو آپریٹ کرنے پر معمور ہیں ان کی اخلاقی اور ہمارے سماجی اقدار کے حوالے سے تربیت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت لوگوں کی نگاہیں عدلیہ، بلوچستان اسمبلی اور ایف آئی اے پر لگی ہوئی ہیں۔

اسمبلی کی رکن شکیلہ نوید دیوار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ عرصہ بیشتر سکیورٹی اہلکار گرلز ہاسٹل میں رات کو آئے اور وہاں کمرہ نمبر دو کو خالی کرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں لڑکیاں چیختی رہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور رات کو یہ لوگ کیوں آئے ہیں؟

انھوں نے بتایا کہ جب کمیٹی کے اراکین نے ہاسٹل کے چوکیدار سے پوچھا کہ انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو کیوں چھوڑا تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ ہاسٹل کے دروازے سے نہیں آئے بلکہ سیڑھیاں لگا کر اندر داخل ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی ویڈیو بھی ہے جسے وہ چیمبر میں فاضل ججوں کو دکھائیں گی۔

اس بات پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے کہا کہ سکیورٹی اہلکار وہاں حفاظت کے لیے ہیں یا لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے نمائندے نے کیا کہا؟

ہراسانی کی خبروں کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اراکین نے بھی یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔

کمیشن کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کمیشن کے اراکین نے نہ صرف اب یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بھی یونیورسٹی کے امور کا جائزہ لیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے اندر فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا گھر، جمنازیم اور ایک ٹیچرز ہاسٹل بھی ایف سی کے استعمال میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی کافی ہے اس لیے ایف سی کے اہلکاروں کی یونیورسٹی کے اندر تعیناتی کی ضرورت نہیں ہے۔

اس موقع پر ایک خاتون وکیل جمیلہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایف سی کے اہلکاروں نے یونیورسٹی کے اندر ایک تفتیشی مرکز بھی بنایا ہے جہاں وہ باہر سے لوگوں کو گرفتار کرکے تفتیش کے لیے لاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر کو ہدایت کی کہ وہ جمنازیم، ٹیچرز ہاسٹل اور وائس چانسلر کے گھر کو دو دن کے اندر ایف سی کے اہلکاروں سے خالی کرائیں۔

ہراسانی سے متاثرہ کوئی شخص ایف آئی اے پیش نہیں ہوا

بلوچستان کے قبائلی ماحول کی وجہ سے ہراسانی کے متاثرہ کوئی بھی خاتون ایف آئی اے میں کیس رجسٹر کرانے کے لیے سامنے نہیں آئیں جس پر عدالت کے کہنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شہک بلوچ شکایت کنندہ بننے تھے۔

انہوں نے سماعت کے دوران بھی ہراسانی کے ایک کیس کا حوالہ دیا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 'ایک ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ کو اس کے ایک ٹیچر نے کہا کہ آپ کا سمسٹر ڈراپ ہو رہا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں اس کو ڈراپ نہیں ہونے دوں گا۔اس طالبہ کو اس کے ڈیپارٹمنٹ کے دو ٹیچروں نے تین گھنٹے تک اپنے پاس بٹھائے رکھا۔'

انھوں نے کہا کہ ہراسانی کے حوالے سے اب تک یونیورسٹی کے چھوٹے گریڈ کے چار اہلکاروں کو معطل کیا گیا لیکن معاملے کو اس سے آگے کیوں نہیں بڑھا گیا۔

انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کل ایف آئی اے والے آئیں گے اور یہ بتائیں گے کہ متاثرین میں سے کوئی سامنے نہیں آیا اس لیے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتائیں گے کہ آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے فلاں فلاں گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کیا جائے ۔

تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایسا نہیں ہونے دے گی کیونکہ یہ معاملہ نہ صرف اس بینچ کے اراکین دیکھ رہے ہیں بلکہ عدالت کے تمام جج اس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وائس چانسلر اور ایف آئی اے کے حکام کو کہا کہ 'جو بھی ان واقعات میں ملوث ہو ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کریں خواہ اس میں میں خود (چیف جسٹس ) ہی کیوں نہ ہوں۔'

انھوں نے کہا کہ متاثرین کو ایف آئی اے یا بلوچستان اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے تاکہ ان واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

عدالت نے کیا احکامات دیے؟

عدالت نے کیس کی سماعت 15دن بعد تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے کے حکام کو حکم دیا کہ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھیں۔

عدالت نے وائس چانسلر کو حکم دیا کہ وہ یونیورسٹی کی جمنازیم، وائس چانسلر کے گھر اور ٹیچرز ہاسٹل سمیت ان تمام مقامات کو ایف سی اہلکاروں سے خالی کرائیں جو کہ طلبا اور اساتذہ کے لیے مختص ہیں۔

عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران یہ دلائل بھی سامنے آئے کہ یونیورسٹی کے اندر فرنٹیئر کور کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے کہا کہ چیف سیکرٹری، وائس چانسلر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کواس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ایف سی کی ضرورت ہے تو ان کے لیے یونیورسٹی کے باہر کون سی جگہ مختص ہونا چاہیے۔