Friday, September 20, 2019

چوڑا بستی ، چھوڑ گيا.

چھاتی ٹھوک کے کہو کہ ھاں ميں چوڑا ھوں!



ھمارے ھاں ايک بستی ھے جس ميں اکثريت مسيحی خاکروب پيشہ و رھيں۔ چاليس سال قبل جب اندرون شہر سے نچلی ذات کے مسيحوں کو شہر سے باھر نکالا تو انہوں نے ريت کے ٹيلوں پر بسيرا کر ليا۔ يہ لوگ دن رات محنت مزدوری کرتے رھے ، گھر بنتے گرتے رھے اور آج يہ بستی شہر کے وسط ميں ھے۔ 

اس بستی کو آباد کرنے والے ذيادہ تر معمار دنيا چھوڑ چکے ھيں، اس بستی ميں ’’سينٹ ميری ‘‘ مشنری سکول ھے جس نے ان خاکروب لوگوں کے بچوں کو معاشرتی تعصبات ، اونچ نيچ، ذات پات سے بچايا۔ بچے پڑھ لکھ کر اب اعلی عہدوں تک پہنچ گے۔ اسی بستی کے ايک چوڑے نے نام بدل کر دور دراز کے علاقے ميں بھيک مانگی شروع کر دی۔ کسی نہ کسی طرح خبر بستی کت پہنچ گئی، لوگوں نے پنچائيت بلوائی اور بھيک مانگنے کی پاداش اس خاکروب (چوڑے) کا حقہ پانی بند کر ديا اور شرط رکھی کہ جب تک وہ بھيک مانگنا ترک نہيں کر دے گا کوئی شخص اُس کو اپنی شادی ميں نہيں بلواے گا۔ سوشل بائيکاٹ سے تنگ آکر وہ بستی چھوڑ گيا کيونکہ گداگری چھوڑنا شائد اُس کو مشکل لگا۔ وہ آسان زندگی کا عادی ھوگيا تھا۔
 
طاھر خليل سندھو صاحب (ايم پی اے ـ پنجاب اسمبلی) دل چھوٹا کيوں کرتے ھيں آپکو خاکروب (چوڑا) کہا گيا ھے، بھکاری تو نہيں!
 
ہر روز باعزت اعلی عہدوں پر فائز لوگ مذہبی تضحيک اور ذات پات کا نشانہ بنتے ھيں آپ چھاتی ٹھوک کرکہيں کہ، ''اگر رزق حلال (خاکروب) کی وجہ سے لوگوں کو چوڑا کہا جاتا ھے تو ھاں ميں چوڑا ھوں۔ ''


تحرير:
لعزر اللئہ رکھا ٴ ـ ايڈوکيٹ