Showing posts with label حکومتی اقدام. Show all posts
Showing posts with label حکومتی اقدام. Show all posts

Sunday, February 23, 2020

کروناوائريس بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں ’طبی ایمرجنسی‘ نافذ (Corona Virus)



ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں طبی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

گذشتہ روز ایران میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چار جبکہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 18 ہو گئی تھی جس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

صوبے میں محکمہ صحت نے گذشتہ ماہ سے اب تک ایران سے واپس آنے والے پاکستانی زائرین سے کہا ہے کہ وہ کھانسی اور بخار کی صورت میں فوری طور پر قریبی ہسپتال میں اپنا طبی معائنہ کرائیں۔

بلوچستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی معاونت سے تفتان شہر میں 100 بستروں پر مشتمل خیمہ ہسپتال قائم کیا جارہا ہے۔

اعلامیے کے مطابق تفتان بارڈر پر پہلے سے دو ڈاکٹر تعینات تھے جبکہ مزید سات ڈاکٹر آٹھ تھرمل گنز کے ساتھ تفتان پہنچ گئے ہیں جو ایران سے آنے والے زائرین اور دیگر مسافروں کی سکریننگ کریں گے جبکہ اسلام آباد سے این آئی ایچ کی ٹیمیں بھی تفتان پہنچ رہی ہیں جو طبی عملے کو تربیت دیں گی۔

بلوچستان کی ایران سے متصل سرحد پر کتنے اضلاع ہیں؟

کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق صوبہ بلوچستان کی ایران سے متصل اضلاع کی تعداد پانچ ہے۔ ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔

تاہم ان تمام اضلاع میں سے ایران اور صوبہ بلوچستان کے درمیان سب سے زیادہ آمد ورفت ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان سے ہوتی ہے۔

تفتان جہاں قانونی طور پر ایران سے تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہے وہیں ایران جانے والے پاکستانی زائرین کی آمد ورفت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔

ایران کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘
ایران میں ہونے والی ان ہلاکتوں کے بعد گذشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم کا ایک اہم بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’یہ امکان کہ اس وائرس پر قابو پا لیا جائے گا ’کم‘ ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ بہت سے کیسز کا براہ راست اس مرض سے کوئی واضح تعلق نظر نہیں آتا جیسا کہ ٹریول ہسٹری یا تصدیق شدہ کیسز کی تاریخ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران میں ہونے والی اموات اور انفیکشن کی صورتحال ’انتہائی تشویشناک‘ ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں سامنے آنے والے کیسز کا مرکز مقدس شہر قم ہے۔ یہ دارالحکومت تہران کے جنوب میں واقع ہے جو کہ خطے میں شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

ایران نے جمعہ کو قم میں مزید دو ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی اس سے قبل جمعرات کو بھی دو ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ادھر ایرانی محکمہ صحت کو خدشہ ہے کہ یہ وائرس ایران کے تمام شہروں میں پہلے سے موجود تھا۔

بلوچستان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات
ایران سے منسلک سرحدی علاقوں میں طبی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا آغاز کردیا گیا ہے۔

سرکاری اعلامیہ کے مطابق کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تفتان میں ایمرجنسی سینٹر قائم کر دیا گیا ہے۔

اس تناظر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس پر انھوں نے وائرس کی روک تھام اور سکریننگ کی سہولیات کی فراہمی کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

اس سے قبل صوبہ بلوچستان میں چینی باشندوں کی موجودگی کے باعث متعدد شہروں میں کورونا وائرس سے بچاﺅ کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

صوبائی محکمہ صحت کے مطابق بلوچستان میں کورونا وائرس کی مجموعی طور پر مانیٹرنگ اور اس کی روک تھام کے لیے 14 رکنی تکنیکی کمیٹی بنائی گئی تھی اور ان علاقوں کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی گئی تھی جہاں چینی باشندے موجود ہیں۔

ان علاقوں میں گوادر کے علاوہ ضلع چاغی میں سیندک اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا علاقہ دودڑھ شامل ہیں۔

گوادر میں کورونا وائرس کے حوالے سے تین مراکز قائم کیے گئے جبکہ صحت کے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ایچ او نے خصوصی کٹس بھی فراہم کیں۔

خیال رہے کہ گوادر سمیت بلوچستان میں تاحال کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

Friday, January 24, 2020

پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا مشتبہ کیس، چینی شہری ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ منتقل



ملتان: (دنیا نیوز) ملتان میں کرونا وائرس کے شبے میں چینی شہری کو نشتر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، مریض کے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیئے گئے۔

40 سالہ فینگ فین ملتان میں انڈسٹریل اسٹیٹ پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جبکہ چند روز قبل ہی چائنا کے شہر ووہان سے واپس لوٹا ہے جسے کرونا وائرس کے شبے میں نشتر ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے خون کے نمونے لیبارٹری بھجوا دیئے گئے ہیں۔

Monday, September 23, 2019

مسیحی طلاق کے ریاستی قانون کی مخالفت کیوں؟



کافی عرصے کے بعد مسیحی سوشل ایشو پر لکھ رہی ہوں. ہر مسیحی رائیٹر یا نان رائیٹر کی وال پر یہی لکھا مل رہا ہے کہ بائبل کا قانون اٹل ہے سو اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنانا چاہئے.

اب ریاست پاکستان مسیحی طلاق کے قانون کو ریاستی قانون کے تحت بنانا چاہ رہی ہے کیونکہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ مسیحی طلاق کا مرحلہ کتنا کھٹن ہے.

کلیسیا نے کلیسائی سطح پر اس مسلے کو نپٹنے یا کم کرنے کے لیے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ سال میں شاید ایک بار کلیسیا میں اس موضوع پر کلام سنا دیا ہو گا کسی کلیسیا میں. اب جب ریاست نے اس مسلے میں دکھ اٹھانے والوں کے لیے قانون سازی کی تو سب اعتراض کرنے لگے ہیں.

میرا سوال یہ ہے کہ آپ عدالتی قوانین کو ٹھیک کرنے کی بجائے اپنا قبلہ کیوں درست نہیں کرتے؟ چرچز میں ایسی تعلیم کیوں نہیں دیتے کہ یہ نوبت ہی نہ آئے اور اگر آئے بھی تو چرچز میں ایسا نظام یعنی کونسلینگ وغیرہ کا نظام کیوں متعارف نہیں کرواتے؟ کیوں کلیسیا کو خاندان سمجھتے ہوئے اپنے مقدمے غیروں کو پاس لے کر جانے دیتے ہیں؟

مجھے ایوبی دور کی بنیادی جمہوریت کے کئی قانون بہت پسند ہیں اور انہیں میں سے ایک قانون طلاق کے بارے میں بھی تھا جس میں ضلح اور تحصیل کی سطح پر ایسے لوگوں کے لیے جو طلاق چاہتے تھے کونسلینگ کا نظام متعارف کروایا گیا تھا کہ مقدمہ عدالت میں جانے سے پہلے کونسلینگ کے مراحل میں سے گزرے. اور اس طرح بہت سے طلاق کے مقدمے یہی صلح پر حل ہو جایا کرتے تھے.

اب چرچ اپنی کمزوری پر واویلا مچانے کی بجائے اپنا تعلیم نظام درست کرے تو بہتر ہو گا. اور پلیز اس ریاستی قانون کو مسیحیت کے خلاف نہ سمجھیں. مسیحیت ایسے قانونوں کی وجہ سے ہرگز ختم ہونے والی نہیں.

تحرير:
شیزا نذیر



Friday, September 20, 2019

پاکستان ميں مسيحی اور ديگرمذھبی اقليتوں کی صورتحال، ايک جائزھ ۱۹۴۷ تا ۲۰۱۸



پاکستان ميں مسيحی اور ديگر مزھبی اقليتوں کی موجودہ صورتحال نيز عوامل و وجوھات.

۱۱اگست ۱۹۴۷ کو بانی پاکستان قايداعظم محمد علی جناح نے آئين ساز اسمبلی سے خطاب ميں فرمايا,

’’آپ سب آزاد ھيں اپنے مندروں ميں جانے کے ليے، آپ سب آزاد ھيں اپنی مسجدوں ميں جانے کے ليے اور کسی بھی عبادت گاھ ميں جانے کے ليے۔ اس مملکت پاکستان ميں آپکا تعلق کسی بھی  مزھب، ذات يا عقيدے سے ھو مملکت کا اس سے کوئیسروکار نھيں۔‘‘

مزيد فرمايا,

’’ھم ايسے دنوں ميں شروع کر رھے ھيں جھاں کوئی امتيازی سلوک نھيں ھے، ايک کميونٹي اور دوسرے کے درميان کوئی فرق نھيں، کسی ذات يا مزھب کے درميان کوئی تعصب نھيں ھے۔ ھم اس بنيادی اصول کے ساۃ شروع کر رھے ھيں کہ ھم سب شھری ھيں، ايک رياست کے برابر کے شھری۔‘‘

قايداعظم کا يہ خطاب اْنکی پاکستان کے ليے بنيادی نظريے ، ترجيھات کو ظاھر کرتا ھے اور اْس وقت کی مسيحی سياسی قيادت نے قا يداعظم کے ان الفاظ پہ يقين کيا اورقيام پاکستان کی غيرمشروط حمايت کرتے ھوے اپنے فيصلہ کن ووٹ کاسٹ کيے۔  ليکن بد قسمتی سے قايداعظم کی وفات کے بعد پاکستان ميں بسنے والے  مسيحی اورديگر مذاھب کے افراد کی صورتحال ميں جوتبديلياں رونما ھوئی  اُنکی تفصيل کا مختصر جائزھ اُوپرشيعرکی گئی ويڈيوپيغام کی صورت ميں موجود ھے۔ 



مزيد جاننے کے لے ويڈيوديکھيں!