Showing posts with label تاريخ. Show all posts
Showing posts with label تاريخ. Show all posts

Monday, February 17, 2020

نظام آف حیدرآباد کے35 ملین پاؤنڈ میں سے ورثا اور انڈیا کو حصہ مل گیا



لندن کی رائل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے بعد نظام آف حیدرآباد اور انڈیا کے درمیان 35 ملین پاؤنڈ کی رقم تقسیم کر دی گئی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کے مطابق نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے وکلا اور لندن میں انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان کی جانب سے کیس پر لگنے والی قانونی فیس کا پینسٹھ پینسٹھ فیصد بھی ادا کیا گیا ہے جس کی مد میں ہائی کمیشن کے مطابق انھیں ’پاکستان نے 2.8 ملین پاؤنڈ ادا کیے ہیں‘۔

تاہم انڈین سفارتی ذرائع نے 35 ملین پاونڈز میں سے ملنے والی رقم کو ضیغہ راز قرار دیتے ہوئے رقم بتانے سے انکار کیا ہے۔

انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے تمام فریقین نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور آخر کار اس طویل قانونی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور اب لوگ آگے بڑھ سکیں گے۔

آٹھویں نظام کے ورثا کے وکلا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں رقم میں سے اپنا حصہ اور 65 فیصد قانونی اخراجات عدالت کے ذریعے مل گئے ہیں اور وہ بہت خوش ہیں کہ اب یہ معاملہ اختتام کو پہنچا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس رقم کی انڈیا کے ساتھ تقسیم پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ خفیہ معاملہ ہے۔

اکتوبر 2019 کے فیصلے میں کیاکہا گیا تھا

لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس نے متحدہ ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان صدیقی کے وزیرِ خزانہ کی جانب سے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی رقم پر پاکستان کا دعویٰ رد کر دیا تھا۔

عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 71 برس قبل جو رقم جمع کروائی گئی تھی اس پر نظام کے ورثا مکرم جاہ، مفرخ جاہ اور انڈیا کا حق ہے۔

10 لاکھ پاؤنڈ کی یہ رقم ریاست کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے سنہ 1948 میں جمع کروائی تھی اور اس میں آج 35 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے لندن بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردہ 10 لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 89 کروڑ روپے) اب ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ (تقریبا 1۔3 ارب روپے) ہو چکے ہیں اور انھی کے نام پر ان کے نیٹ ویسٹ بینک اکاؤنٹ میں جمع تھے۔

ان پیسوں کے لیے نظام اور پاکستانی ہائی کمشنر کے جانشینوں کے مابین کشیدگی رہی ہے اور یہ کیس لندن میں زیر سماعت تھا۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس مارکس سمتھ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ کی اس رقم پر پاکستان کا حق نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ساتویں نظام آف دکن اس رقم کے اصل مالک تھے اور شہزادے اور انڈیا جو کہ نظام کے نام پر اس حق کا دعویٰ کر رہے ہیں اس رقم کی وصولی کے حقدار ہیں۔

فیصلے کے مطابق رقم کی منتقلی کے حوالے سے فریقین کو مناسب انتظام کرنا تھا جس کی منظوری عدالت نے دینی تھی۔

عدالت کا کہنا ہے تھا کہ پاکستان کی جانب سے عدالت کے اس معاملے پر فیصلہ کرنے کا مجاز نہ ہونے اور معاملے کے غیرقانونی ہونے کی بنیاد پر فیصلے کے اطلاق نہ ہونے کے دعوے درست نہیں تھے۔

فیصلے پر نظام کے ورثا اور پاکستان کا ردعمل

نظام آف حیدرآباد کے ورثا کی جانب سے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھیں ایک عرصے سے اس فیصلے کا انتظار تھا اور وہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ برطانوی ہائی کورٹ نے پاکستان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے، انڈیا اور ساتویں نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے حق میں فیصلہ دے کر ’درست کام کیا ہے‘۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ فیصلے میں رقم کی منتقلی کے تاریخی پس منظر کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔

بیان کے مطابق انڈیا نے حیدرآباد کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ساتھ شامل کیا تھا اور اسی وجہ سے نظام آف حیدرآباد کو اپنی ریاست اور عوام کو انڈین دراندازی سے تحفظ دینے کے لیے یہ اقدامات کیے گئے تھے۔

پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد قانونی مشوروں کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

بی بی سی کی گگن سبروال نے ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین جاری اس قانونی لڑائی اور رقم کی منتقلی کی کہانی جاننے کی کوشش کی ہے۔

ریاست حیدرآباد کے ہندوستان سے الحاق کی کہانی

15 اگست سنہ 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا لیکن جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سمیت متعدد ریاستوں نے اس دن آزادی کا ذائقہ نھیں چکھا۔

حیدرآباد 17 ستمبر 1948 تک نظام شاہی کے تحت آزاد ریاست کے طور پر برقرار رہا۔ اس کے بعد اس شاہی ریاست کو 'آپریشن پولو' نام کے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ہندوستان میں ضم کر لیا گیا۔

10 لاکھ پاؤنڈ کی منتقلی کی یہ کہانی حیدرآباد کے ہندوستان میں ضم ہونے کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

اس وقت حیدرآباد آصف جاہ خاندان کی ساتویں پشت نواب میر عثمان علی خان صدیقی کی ریاست تھی۔ اس وقت وہ دنیا کے سب سے امیر شخص سمجھے جاتے تھے۔

ساتویں نظام کے پوتے شہزادہ مکرم جاہ کی نمائندگی کرنے والے قانونی ادارے ویدرز ورلڈ وائڈ لا فرم کے پول ہیوٹ کا کہنا ہے کہ 'آپریشن پولو کے دوران، حیدرآباد ریاست کے نظام کے وزیر خزانہ نے ان کی رقم کو محفوظ رکھنے کے ارادے سے تقریباً دس لاکھ پاؤنڈ اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر کے لندن کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔'

سنہ 1948 میں منتقل کی جانے والی یہی رقم بعد میں ساتویں نظام اور پاکستان کے جانشینوں کے مابین قانونی جنگ کی وجہ بنی۔

رقم واپس حاصل کرنے کی جنگ

پال ہیوٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'جیسے ہی حیدرآباد کے ساتویں نظام کو رقم کی منتقلی کے بارے میں معلوم ہوا انھوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ جلد ہی انھیں ان کا پیسہ واپس کر دے۔ لیکن رحمت اللہ نے رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب یہ پاکستان کی پراپرٹی ہے۔'

اس کے بعد 1954 میں ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین ایک قانونی جنگ شروع ہوگئی۔ نظام نے اپنے پیسے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور قانونی عمل شروع کر دیا۔

ہائی کورٹ میں کیس پاکستان کے حق میں چلا گیا اور اس کے بعد نظام کو اپیل عدالتوں میں جانا پڑا جہاں جیت نظام کے حق میں ہوئی۔

لیکن اس کے بعد پاکستان نے آگے بڑھ کر برطانیہ کی اس وقت کی اعلیٰ ترین عدالت ہاؤس آف لارڈز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ نظام پاکستان پر مقدمہ نھیں چلا سکتا کیونکہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے۔

ہاؤس آف لارڈز نے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا اور اس دلیل کو قبول کیا کہ نظام پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نھیں کرسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہاؤس آف لارڈز نے اس متنازع رقم یعنی دس لاکھ پاؤنڈ کو منجمد کرا دیا۔

اس وقت سے پاکستان ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی رقم نیٹ ویسٹ بینک کے پاس ہے۔ بینک کے مطابق یہ رقم اب عدالت کے فیصلے کے بعد صرف صحیح وارث کو دی جاسکتی ہے۔

لیکن گذشتہ 60 سالوں میں سود کی رقم میں اضافہ سے 1948 میں جو رقم دس لاکھ پاؤنڈ تھی وہ اب ساڑھے تین کروڑ پاؤنڈ ہوچکی ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نھیں ہوا۔

حکومت ہند بھی اس معاملے میں ایک فریق ہے

حیدرآباد کے ساتویں نظام کا 1967 میں انتقال ہو گیا۔ لیکن رقم واپس حاصل کرنے کی یہ قانونی جنگ اس کے بعد بھی جاری رہی اور ان کے جانشینوں نے اسے آگے بڑھایا۔

اس قانونی لڑائی میں 2013 میں پال ہیوٹ اس وقت شامل ہو گئے جب پاکستانی ہائی کمشنر نے پاکستان کے لیے رقم نکالنے کے لیے بینک کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔

اس کے بعد بینک اس بات کا پابند ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں اس رقم کا دعویٰ کرنے والے تمام متعلقہ فریقوں سے بات کرے جس میں ہندوستان سمیت نظام سلطنت کے دونوں شہزادے بھی شامل تھے۔

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ دونوں شہزادوں نے حال ہی میں ہندوستانی حکومت سے اس مسئلے پر بات چیت کی ہے جس نے ایک بار اس رقم پر اپنا دعویٰ بھی پیش کیا تھا۔

اب تک نظام کے جانشینوں اور ہندوستانی حکومت کے مابین گفتگو یا معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات سامنے نھیں آئیں۔

بی بی سی نے نظام کے جانشینوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

پاکستان کے دلائل

نظام کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آپریشن پولو کے دوران یہ رقم پاکستانی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ میں محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔

جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ حیدرآباد کے 1948 میں انڈیا میں ضم ہونے کے دوران پاکستان نے سابق نظام کی بہت مدد کی تھی۔ یہ رقم سابقہ نظام نے اسی امداد کے بدلے پاکستانی عوام کو بطور تحفہ دی تھی اور اسی وجہ سے اس پر پاکستان کا حق ہے۔

پال ہیوٹ نے کہا: 'سنہ 2016 میں پاکستان کا موقف تھا کہ 1947 سے 48 کے درمیان پاکستان سے اسلحہ حیدر آباد لایا گیا تھا جس کی قیمت دس لاکھ پاؤنڈ تھی۔

'پاکستان نے اب تک اس معاملے میں دو دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے کہا کہ یہ رقم نظام کی جانب سے پاکستان کو تحفے کے طور پر دی گئی اور بعد میں کہا کہ یہ رقم اسلحہ کی خریداری کے بدلے منتقل کی گئی تھی۔ نظام کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ پاکستان نے دونوں دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نھیں کیا ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بہت متضاد ہیں۔'

پاکستان کی جانب سے اس کیس کی نمائندگی کرنے والے کوئینز کونسل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اس معاملے پر بات نھیں کرنا چاہتے ہیں۔

بی بی سی کے پاس پاکستان سے جمع کرائے گئے دلائل کی ایک کاپی ہے۔ اس دستاویز کے مطابق: 'حیدرآباد کے ساتویں نظام کی پاکستان نے مدد کی تھی اور اس کے بدلے میں رحمت اللہ کے بینک اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی گئی تھی تاکہ اس رقم کو ہندوستان کے ہاتھوں سے دور رکھا جاسکے۔

'پاکستان نے ساتویں نظام کے لیے پاکستان سے اسلحہ فراہم کیا تھا تاکہ حیدرآباد ہندوستانی حملے سے خود کو بچاسکیں۔'

اس دستاویز کے مطابق 20 ستمبر 1948 سے یہ رقم رحیم اللہ کے لندن میں مقیم بینک اکاؤنٹ میں محفوظ ہے۔

میں نے پال ہیوٹ سے سوال کیا کہ آیا اس رقم کی منتقلی سے قبل دونوں فریقوں کے مابین کوئی تحریری معاہدہ نھیں ہوا تھا تو ہیوٹ کا کہنا تھا کہ 'ساتویں نظام نے ایک حلف نامہ دیا ہے کہ انھیں اس منتقلی کا کوئی علم نھیں تھا۔'

'اس ثبوت کو اب تک چیلنج نھیں کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ان کے وزیر خزانہ کو یہ لگا کہ وہ نظام کے مستقبل کے لیے کچھ رقم حاصل کررہے ہیں اور اس معاہدے کی بنا پر رحمت اللہ نے اپنے اکاؤنٹ میں رقم رکھنے کے لیے قبول کر لیا۔'

پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ 'جب ساتویں نظام کو یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ اپنی زندگی میں یہ رقم واپس حاصل نھیں کر پائیں گے تو انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ انھوں نے اس رقم کو اپنے ٹرسٹ میں شامل کیا اور دو ٹرسٹی مقرر کیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان کے بعد ان کے جانشین ان کے دو پوتے آٹھویں نظام اور ان کے چھوٹے بھائی ہوں گے۔ اس لیے اب اس خاندانی سلسلے کے یہی دو لوگ ہیں جو اس پیسے کے حقدار ہوں گے۔'

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ اور تاریخی معاملہ ہے جس سے وہ براہ راست منسلک ہیں۔

بی بی سی تیلگو سروس کی نمائندہ دیپتی باتھینی نے کچھ عرصہ قبل دکن ہیریٹیج سوسائٹی کے سربراہ محمد صفی اللہ سے اس معاملے کے بارے میں بات کی تھی۔

محمد صفی اللہ کا کہنا ہے کہ 1948 میں 13 ستمبر سے 17 ستمبر تک ہندوستانی حکومت نے آپریشن پولو کیا تھا جو حیدرآباد کی ریاست کے خلاف مکمل طور پر ایک فوجی آپریشن تھا۔ اس مہم میں ہندوستانی فوج کے قریب 40 ہزار فوجی شامل تھے۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کیا اور اس کے بعد ہندوستانی یونین میں شامل ہونے پر راضی ہو گیا۔

صفی اللہ کا خیال ہے کہ 350 لاکھ پاؤنڈ کی اس پوری رقم کو تین فریقوں حکومت ہند، نظام کے جانشین اور پاکستان میں برابر برابر تقسیم کر دینا چاہیے۔

'شاید اس مسئلے کا یہ حل سب کے لیے قابل قبول ہو!'

Thursday, February 6, 2020

انڈیا میں محمد علی جناح کا اتنا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟


تحرير: سہيل حليم


انڈیا میں آجکل محمد علی جناح کا جتنا ذکر ہو رہا ہے شاید پاکستان میں بھی نہیں ہوتا ہوگا۔

کوئی کہہ رہا ہے کہ بانی پاکستان یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں گے کہ ہندوستان جس راہ پر چل رہا ہے جلدی ہی اس کی ملاقات پاکستان سے ہو جائے گی اور تقسیم کے وقت دونوں بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہوکر بھلے ہی الگ الگ راستوں پر نکل پڑے ہوں لیکن اب لگتا ہے کہ انجام کار ستر سال کے لمبے اور دشوار گزار سفر کے بعد ایک ہی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

اور تب شاید پاکستان مڑ کر انڈیا سے کہے گا کہ بھائی اگر یہیں آنا تھا تو الگ ہی کیوں ہوئے، ساتھ ہی چل پڑتے ؟ اور اگر "جی پی ایس" استعمال کیا ہوتا تو یہاں وہاں بھٹکنے میں اتنا وقت برباد نہ ہوتا، سیدھے منزل پر پہنچتے!

کوئی کہہ رہا ہے کہ حکمراں بی جے پی شہریت کا جو نیا قانون وضع کر رہی ہے اس سے جناح کا دو قومی نظریہ درست ثابت ہوجائے گا، یہ گاندھی کے مقابلے میں جناح کے نظریے کی جیت ہوگی۔ جناح اور پاکستان کا ذکر ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔

وزیراعظم مودی اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ انہوں نے پھر لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ کانگریس پاکستان کی زبان بول رہی ہے اور جواب میں کانگریس کے لیڈر ششی تھرور کا کہنا ہے کہ مسٹر مودی کی حکومت نہ صرف پاکستان کی طرح بات کرتی ہے بلکہ اسی کے نقش قدم پر چلتی بھی ہے اور سوچتی بھی ہے!

بھائی، خون تو ایک ہی ہے! چہرہ مہرہ، وہ بول چال کا انداز، وہ طور طریقے؟ آپ کتنی بھی کوشش کرلیں کچھ چیزیں نہیں بدلا کرتیں۔

بہرحال، شہریت کے قانون میں معمولی سی ترمیم کی جارہی ہے، کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے کہ جس پر اتنا ہنگامہ کیا جائے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ اگر آپ ہندو، سکھ، مسیحی، جین، بودھ یا پارسی ہیں اور آپ نے پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لی ہے تو آپ کو ہندوستان کی شہریت دے دی جائے گی کیونکہ حکومت یہ مانتی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے ہیں تو آپ کو آپ کے مذہب کی وجہ سے ستایا گیا ہوگا، ورنہ کون اپنا گھر بار چھوڑ کر یوں در بدر ٹھوکریں کھاتا ہے؟

اور اگر آپ روزگار کی تلاش میں یہاں آتے تھے تو خاموش ہی رہیے گا کیونکہ نئے مجوزہ قانون میں یہ خانہ شامل نھیں ہے، ایسا نہ ہو کہ زبردستی ایمانداری دکھانے کے چکر میں الٹا پھنس جائیں۔ بہت سے لوگ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جو لوگ چالیس پچاس سال پہلے بنلگہ دیش (یا اس سے پہلے مشرقی پاکستان) کی سرحد پار کرکے شمال مشرقی ریاستوں میں آکر بس گئے تھے، وہ یہ کیسے ثات کریں گے کہ انہیں ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا تھا؟ اس لیے بس جو حکومت کہہ رہی ہے کرتے رہیے۔

اگر آپ مسلمان ہیں اور غلطی سے یہاں پہنچ گئے تھے تو آپ کو عزت کے ساتھ گھر واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے گا۔ اگر پڑوسی ملک واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر بات ذرا پیچیدہ ہوجاتی ہے لیکن ان پیچیدگیوں کے بارے میں آپ کو گھر چھوڑنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔

اور اگر آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہم تو پچاس سال سے یہاں رہتے ہیں، بچے بھی یہیں پیدا ہوئے ہیں اور سوچا تھا کہ مریں گے بھی یہیں، تو یا تو پچاس برسوں میں آپ کے حالات زندگی بدل چکے ہوں گے اور آپ کو واپس جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر حالات نہیں بدلے ہیں تو آپ کو ویسے بھی کہیں اور جاکر ٹرائی کرنے کے بارے میں سوچنا ہی چاہیے۔

جہاں تک شہریوں کے قومی رجسٹر کا سوال ہے، اس میں ان تمام لوگوں کو شامل کیا جائے گا جو اپنی شہریت ثابت کر پائیں گے، جو نہیں کر پائیں گے لیکن مسلمان نہیں ہوں گے انہیں نئے قانون کے تحت شہریت دے دی جائے۔ جو ثابت نہیں کر پائیں گے لیکن مسلمان ہوں گے۔۔۔ اف! یہ اکوئیشن بہت الجھی ہوئی ہے، وہ بھی کسی نہ کسی فہرست میں شامل ہوں گے لیکن فی الحال کہنا مشکل ہے کہ کونسی۔

پارلیمان میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ اگر کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہ کیا ہوتا تو اس قانون کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

لیکن اگر ملک تقسیم نہ ہوا ہوتا تو اس کی آبادی بھی تقسیم نہ ہوتی اور اس کے کچھ فائدے بھی ہوتے اور نقصان بھی۔

سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ انڈیا اور پاکستان ایک ہی ملک ہوتے اس لیے ان میں آپس میں جنگیں نہ ہوتیں، کشمیر پر کوئی تنازع نہ ہوتا اور اسے ’مرکز کے زیر انتظام علاقہ‘ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی، آئی ایس آئی اور را ایک ہی ہوتے، یہ فیصلہ نہ کرنا پڑتا کہ عمران خان زیادہ بڑے آل راؤنڈر تھے یا کپل دیو، دونوں ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوتے اور ٹی وی چینلوں کے پاس زیادہ کام نہ ہوتا۔

(اور عمران خان کبھی پاکستان کے وزیر اعظم نہ بن پاتے، لیکن کچھ لوگ اس بات کو فائدہ میں ڈالیں گے اور کچھ نقصان میں، اس لیے اسے بیچ میں ڈال دیتے ہیں)

نقصان یہ ہوتا کہ بی جے پی کے رہمنا بات بات پر کچھ لوگوں کو پاکستان جانے کا مشورہ نہ دے پاتے، لال کرشن اڈوانی نے کراچی جاکر جناح کو سیکولر نہ بتایا ہوتا اور اس کے بعد گھر نہ بٹھائے گئے ہوتے اور شاید وہ ’سیاسی سپیس‘ خالی ہی نہ ہوتی جو نریندر مودی نے پر کی ہے، اور اگر نریندر مودی وزیر اعظم نہ بنتے تو امت شاہ وزیر داخلہ کیسے بنتے؟ تو شاید پارلیمان میں یہ بل بھی پیش نہ ہوتا۔

تو امت شاہ صاحب، اس بحث کا کوی فائدہ نہیں، یہ مرغی اور انڈے کی بحث ہے، کبھی ختم نہیں ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ جو لوگ کسی بھی مشکل میں، چاہے پیسہ کمانے یا پھر جان بچا کر، یا پھر آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے ہندوستان آئے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟

چھوڑ دیا جائے یا بھگا دیا جائے؟

ہماری مانیں تو چھوڑ دیجیے، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے چاہے آپ کی کتنی بھی دوستی یا دشمنی ہو، وہ کسی بھی مذہب کا ایک بھی فرد لینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جو لوگ انڈیا میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد یہاں کی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت پر کیا دعوی کریں گے؟ تو پھر آپ انہیں حراستی مراکز میں رکھیں گے اور آخرکار کبھی نہ کبھی چھوڑ ہی دیں اور اگر چھوڑنا ہی ہے تو پکڑنے کا کیا فائدہ؟

غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر ان لوگوں نے اتنا وقت اگر امریکہ میں بھی گزارا ہوتا تو کب کے شہری بن گئے ہوتے!

Wednesday, October 23, 2019

جناح کا بنگلہ


تحرير:  وویک شکلا

سات اگست سنہ 1947 کا دن تھا محمد علی جناح وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے طیارے سے اپنی چھوٹی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ کراچی کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔

ہرچند کہ جناح کی شناخت سے ممبئی کا تعلق زیادہ ہے لیکن انھوں نے سنہ 1940 سے 1947 کے درمیان زیادہ تر وقت دہلی میں ہی گزارا تھا۔ 

اس دن انھوں نے تپتی گرمی کے باوجود شیروانی پہنی تھی جب کہ عام طور پر وہ سوٹ پہنتے تھے۔ ایئر پورٹ پر انھیں رخصت کرنے بہت سے لوگ آئے تھے جن میں صنعت کار سیٹھ رام کرشن ڈالمیا بھی تھے۔

محمد علی جناح سنہ 1940 سے پہلے بھی دہلی آتے رہے تھے اور وہ امپیریئل ہوٹل میں ہی ٹھہرتے تھے جو ان کے شاہانہ مزاج سے مطابقت رکھتا تھا۔

جناح نے سنہ 1939 میں دہلی میں اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ اب ہوٹلوں میں رہنے سے بات نہیں بننے والی تھی اس لیے ان کے لیے ایک عدد بنگلے کی تلاش شروع ہوئی۔

کافی تلاش کے بعد 10 اورنگزیب روڈ (اب اے پی جے عبدالکلام روڈ) پر واقع بنگلہ خریدا گیا جس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ ایکڑ ہے۔ اس دو منزلہ بنگلے کا ڈیزائن ایڈورڈ لٹین کی ٹیم کے رکن اور کناٹ پلیس کے ڈیزائنر رابرٹ ٹور رسل نے تیار کیا تھا۔

دہلی میں ان کے غیر سیاسی دوستوں میں سردار سوبھا سنگھ (معروف صحافی اور مصنف خوشونت سنگھ کے والد) اور سیٹھ رام کرشن ڈالمیا بھی تھے۔

ڈالمیا کی بیٹی اور 'دی سیکرٹ ڈائری آف کستوربا' کی مصنفہ نيلما ڈالمیا نے بتایا: ’میرے والد سیٹھ رام کے محمد علی جناح کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ جناح کا ہمارے اکبر روڈ اور سکندرا روڈ پر واقع بنگلوں میں باقاعدگی سے آنا جانا رہتا تھا۔‘

ہمیشہ کے لیے دہلی چھوڑنے سے ایک دن قبل ڈالمیا کے سکندرا روڈ والے بنگلے پر جناح کو کھانے پر بلایا۔ ان کی بہن فاطمہ جناح بھی آئیں، رام کرشن ڈالمیا کی بیوی نندنی ڈالمیا بھی میزبانی کر رہی تھیں۔

نيلما بتاتی ہیں: ’چونکہ اگلے دن جناح جا رہے تھے اس لیے ماحول میں اداسی کا پہلو شامل تھا۔‘

پاکستان جانے سے پہلے جناح نے اپنا بنگلہ تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں ڈالمیا کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔ حالانکہ دونوں دوست تھے پھر بھی جناح ڈھائی لاکھ روپے سے کم پر بنگلہ فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

خریدنے کے بعد ڈالمیا نے بنگلے کو گنگا جل سے دھلوايا، جناح کے دہلی چھوڑتے ہی بنگلے کے اوپر لہرانے والے مسلم لیگ کا پرچم اتارا گیا، اور اس کی جگہ گوركشا تحریک کا پرچم لگوایا گیا، یعنی مسلمانوں کے غیر متنازع رہنما کی کٹر ہندووادی شخص سے گہری دوستی تھی۔

(خیال رہے کہ ہندو مذہب میں گنگا کے پانی کی بہت اہمیت اور یہ پاک تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کا ہر طرح کی مذہبی تقریب میں استعمال ہوتا ہے)

سنہ 1964 تک ڈالمیا نے جناح سے خریدے جانے والے بنگلے کو اپنے پاس رکھا اور پھر ہالینڈ حکومت کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ اس کے بعد سے اس بنگلے کا استعمال نئی دہلی میں ہالینڈ کے سفیر کی رہائش کے طور پر ہو رہا ہے۔

اس بنگلے میں پانچ بیڈروم، ایک بڑا ڈرائنگ روم، میٹنگ روم اور بار وغیرہ ہیں، آج اس کی قیمت سینکڑوں کروڑ روپے لگائی جاتی ہے۔

Saturday, October 19, 2019

رعنا لیاقت علی: پاکستان کی خاتونِ اول




تحرير: ریحان فضل

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جمشید مارکر کہتے تھے کہ رعنا لیاقت علی جب کسی کمرے میں داخل ہوتی تھیں تو وہ کمرہ خود ہی روشن ہو اٹھتا تھا۔

ایک مرتبہ برج کھیلتے ہوئے لیاقت علی نے اپنے رہنما محمد علی جناح سے کہا کہ آپ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ جناح نے تپاک سے کہا 'مجھے دوسری رعنا لا دو، میں فوراً شادی کر لوں گا‘۔

رعنا لیاقت علی کی پیدائش 13 فروری 1905 میں شمالی ہند کے علاقے الموڑہ میں ہوئی تھی اور انکا نام آئرین روتھ پنت تھا۔ 

وہ کماؤں کے ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن بعد میں انھوں نے مسحيی ايمان قبول کر ليا تھا۔ 

رعنا لیاقت علی کی سوانحِ عمری 'دی بیگم' کی شریک مصنفہ دیپا اگروال بتاتی ہیں کہ وہ ایک آزاد خیال خاتون تھیں اور ان میں زبردست اعتماد تھا۔

86 سال کی اپنی زندگی میں انھوں نے 43 سال انڈیا میں جبکہ اتنا ہی عرصہ پاکستان میں گذارا۔ انھوں نے نہ صرف اپنی انکھوں کے سامنے تاریخ رقم ہوتے دیکھی بلکہ اس کا حصہ بھی بنیں۔

جناح سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سبھی کے سامنے وہ اپنی بات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائیں۔ ایم اے کی اپنی کلاس میں وہ اکیلی لڑکی تھیں اور لڑکے انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کی سائیکل کی ہوا نکال دیتے تھے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر پشپیش پنت کا ننیھال بھی اسی جگہ تھا جہاں آیرین روتھ پنت کا خاندان رہا کرتا تھا۔ پروفیسر پشپیش پنت بتاتے ہیں کہ میں تقریباً 60 سال پہلے آٹھ یا دس برس کی عمر میں اپنی ننھیال والے مکان میں رہا کرتا تھا۔

’لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے کہ ان کی بہن پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بیاہی گئی تھیں اور ان لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'رعنا کے دادا ایک اعلی ذات کے برہمن تھے اور وہاں کے مشہور وید یا حکیم تھے اور جب انھوں نے مسحيت کو قبول کيا تو پورے علاقے میں ہلچل مچ گئی تھی کیونکہ اکثر نیچی ذات کہے جانے والے لوگ ہی مذہب تبدیل کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد جب رعنا نے ایک مسلمان سے شادی کر لی تو لوگ اور باتیں کرنے لگے۔‘

اس دور میں الموڑے کے دقیانوسی معاشرے میں ماڈرن کہی جانے والی پنت بہنیں نہ صرف پورے شہر میں موضوعِ بحث ہوا کرتی تھیں بلکہ کچھ لوگ انھیں رشک کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے۔

مشہور ناول نگار کی بیٹی ایرا پانڈے لکھتی ہیں 'میرے نانا کے برابر والا گھر ڈینیل پنت کا تھا جن کا خاندان مسیحی مذہب قبول کر چکا تھا لیکن ایک زمانے میں وہ ہماری ماں کے رشتے دار ہوا کرتے تھے۔‘

ہمارے نانا نے ان کی دنیا کو ہماری دنیا سے الگ کرنے کے لیے ہمارے گھروں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی تھی اور ہمیں سخت ہدایت تھی کہ ہم دوسری جانب دیکھنے کی کوشش بھی نہ کریں۔‘

میری ماں شوانی نے لکھا تھا کہ 'ان کے گھر کے باورچی خانے میں پکنے والے ذائقے دار گوشت کی پاگل کر دینے والی مہک ہماری بے رونق برہمن رسوئی میں پہنچ کر ہماری دال اور آلو کی سبزی اور چاول کو شرمندہ کر دیتی تھی۔‘

'برلن وال' کے اس پار کے بچوں میں ہینری پنت میرے خاص دوست تھے اور ان کی بہنیں اولگا اور موریل جب اپنی جارجیٹ کی ساڑھی میں الموڑہ کے بازار میں چہل قدمی کرتی تھی تو ہم لوگ رشک سے مر ہی جاتے تھے۔

آئرین پنت یعنی رعنا کی تعلیم لکھنؤ کے لال باغ سکول اور پھر وہیں کے مشہور آئی ٹی کالج میں ہوئی۔

متعدد اہم مصنف جیسے قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، اور عطیہ حسین اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے نکلی ہیں۔

آئرین کی بچپن کی دوست مائلز اپنی کتاب 'اے ڈائنومو اِن سِلک' میں لکھتی ہیں 'وہ جہاں بھی ہوتی تھیں ان کے ارد گرد زندہ دلی ہوتی تھی۔ کالج میں لڑکے بلیک بورڈ پر انکی تصویر بنایا کرتے تھے لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔‘

مسلم لیگ کے رہنما لیاقت علی سے ان کی ملاقات بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں ان دنوں ریاست بہار میں سیلاب آیا ہوا تھا اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طالب علموں نے فیصلہ کیا وہ ایک پروگرام کر کے وہاں کے لیے فنڈ جمع کریں گے۔

آئرین پنت جو لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی تھیں شو کے ٹکٹ فروحت کرنے پارلیمنٹ پہنچیں اور وہاں انھوں نے پہلا دروازہ کھٹکھٹایا وہ لیاقت علی خان نے کھولا۔

لیاقت ٹکٹ خریدنے میں جھجھک رہے تھے اور بڑی مشکل سے انھوں نے ایک ٹکٹ خریدا۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں آئرین نے کہا کہ کم از کم دو ٹکٹ تو خریدیں اور شو دیکھنے کے لیے کسی کو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔جواب میں لیاقت علی نے کہا کہ میں کسی کو نہیں جانتا جس کو اپنے ساتھ لاؤں اس پر آئرین بولیں میں آپ کے لیے ایک ساتھی کا انتظام کرتی ہوں اور اگر کوئی نہیں ملا تو میں ہی آپ کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھ لوں گی اور لیاقت ان کی یہ درخواست رد نہیں کر پائے۔

لیاقت علی اپنے دوست مصطفی رضا کے ساتھ شو دیکھنے پہنچے لیکن کافی تاحیر کے ساتھ۔

بعد میں آئرین اندرپرستھ کالج میں لیکچرار ہو گئیں۔ جب انھیں خبر ملی کہ لیاقت علی کو لیجیسلیٹیو اسمبلی کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے تو انھوں نے انھیں خط لکھ کر مبارکباد دی۔

جواب میں لیاقت علی نے لکھا کہ 'جان کر خوشی ہوئی آپ دلی میں ہیں جو میرے شہر کرنال کے بلکل نزدیک ہے اس بار جب میں لکھنؤ جاتے ہوئے دلی سے گزروں گا تو کیا آپ میرے ساتھ چائے پینا پسند کریں گی؟‘

آئرین نے ان کی دعوت قبول کی اور یہیں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 16 اپریل 1933 کو بات شادی تک پہنچ گئی۔

لیاقت علی ان سے دس سال بڑے تھے اور پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کے باپ بھی۔ لیاقت علی کی شادی ان کی کزن جہاں آرا سے ہو چکی تھی اور ان کے بیٹے کا نام وِلایت علی خان تھا۔

بہر حال ان کی شادی ہوئی اور جامع مسجد کے امام نے ان کا نکاح پڑھوایا اور آئرین نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام گل رعنا رکھا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں اس وقت لیاقت علی سیاسی افق کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے تھے اور محمد علی جناح کے بہت نزدیک بھی۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں کہ لیاقت علی کو فوٹو گرافی کا شوق تھا انھوں نے موسیقی سیکھی تھی، پیانو اور طبلہ بجاتے تھے اور گاتے بھی اچھا تھے۔ ان کی پارٹیوں میں نہ صرف غزلوں کا دور چلتا تھا بلکہ انگریزی گانے بھی سننے کو ملتے تھے۔

دونوں میاں بیوی برج کھیلنے کے شوقین تھے۔ پانچ فٹ لمبی رعنا کو نہ تو زیور کا شوق تھا اور نہ ہی کپڑوں کا انھیں ایک پرفیوم پسند تھا 'جوائے'۔ جبکہ لیاقت علی کو امرود بہت پسند تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ اس سے خون صاف ہوتا ہے۔

جانے سے پہلے جہاں جناح نے اورنگزیب روڈ والا بنگلہ رام کرشن ڈالمیہ کو فروخت کیا تھا وہیں لیاقت علی نے اپنا بنگلہ پاکستان کو عطیہ کر دیا تھا۔

اسے آج بھی پاکستان ہاؤس کہا جاتا ہے اور وہاں آج بھی انڈیا میں تعینات پاکستان کے سفیر رہتے ہیں۔

دیپ اگروال بتاتی ہیں کہ لیاقت علی نے اپنے گھر کی ایک ایک چیز پاکستان کو دیدی تھی اور وہ صرف ذاتی استعمال کی کچھ چیزیں لے کر پاکستان گئے تھے۔

اس سامان میں ایک سوٹ کیس سیگریٹ لائٹروں سے بھرا تھا اور وجہ یہ تھی کہ انھیں سیگریٹ لائٹر جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔

اگست 1947 میں لیاقت علی، ان کی بیگم رعنا لیاقت علی اور دو بیٹوں اشرف اور اکبر نے دلی کے ویلنگٹن ہوائی اڈے سے کراچی کے لیے پرواز کیا۔

لیاقت علی کا قتل

لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم بنے اور رعنا پہلی حاتونِ اول۔ لیاقت نے انھیں اپنی کابینہ میں اقلیتوں اور خواتین کی بہبود سے متعلق وزارت دی۔

ابھی چار سال ہی گذرے تھے کہ راولپنڈی میں ایک جلسے میں خطاب کے دوران لیاقت علی کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے بعد بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ رعنا اب واپس انڈیا چلی جائیں گی لیکن انھوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

کتاب 'دی بیگم‘ کی مشترک مصنفہ تہمینہ عزیز ایوب بتاتی ہیں کہ ابتدا میں وہ بہت پریشان تھیں اور گھبرائیں بھی کہ اب میں کیا کروں گی کیونکہ لیاقت ان کے لیے کوئی پیسہ یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔

ان کے اکاؤنٹ میں محض 300 روپے تھے اور ان کا بڑا مسئلہ بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم تھی۔ کچھ لوگوں نے ان کی مدد بھی کی۔

پاکستان کی سفیر بنا دی گئیں

حکومتِ پاکستان نے انھیں ماہانہ دو ہزار روپے کا وظیفہ دینا شروع کر دیا۔ تین سال بعد انھیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیج دیا گیا جس سے انھیں کچھ آسرا ہوا۔

رعنا نے 1949 میں ہی آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھ دی تھی اور بیرون ملک ہوتے ہوئے بھی وہ اس تنظیم سے وابستہ رہیں۔ ہالینڈ کے بعد انھیں اٹلی میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔

تہمینہ ایوب بتاتی ہیں کہ وہ بہت تعلیم یافتہ تھیں اور مختلف موضوعات پر ان کی اچھی گرفت تھی۔ رعنا لیاقت علی نے سفارت کاری کے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیے۔ ہالینڈ نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز 'اورینج ایوارڈ' سے بھی نوازا۔

اس وقت ہالینڈ کی رانی سے ان کی اچھی دوستی ہوئی اور رانی نے انھیں ایک عالیشان گھر کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ تم انتہائی سستے دام میں اسے اپنی ایمبیسی کے لیے خرید لو۔

یہ گھر شہر کے درمیان میںاور شاہی محل سے صرف ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ وہ بلڈنگ آج بھی پاکستان کے پاس ہے جہاں ہالینڈ میں پاکستان کا سفارتی عملہ رہتا ہے۔

بیگم رعنا سوئزر لینڈ کی سفیر بھی بنیں اور انڈیا کے سابق خارجہ سیکریٹری جگت مہتہ کے فلیٹ میں ٹھہریں جو اس وقت سوئزر لینڈ میں انڈیا کے جونیئر سفیر ہوا کرتے تھے۔

بعد میں جگت مہتہ نے اپنی کتاب 'نیگو شی ایٹِنگ فار انڈیا، ریزالوِنگ پرابلمز تھرو ڈپلومیسی' میں لکھا کہ 'وہ ہمارے چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہیں حالانکہ وہاں برطانوی سفیر نے جو پاکستان کے سفیر کی ذمہ داری بھی سنبھالتے تھے انھیں اپنے گھر رہنے کی دعوت دی تھی۔

انھوں نے لکھا کہ 'آتے ہی وہ بغیر تکلف کے میرے باورچی خانے میں گئیں اور تو اور ایک مرتبہ انھوں نے میرے دو چھوٹے بچوں کو نہلایا بھی تھا۔ ڈپلومیسی کی تاریخ میں انڈیا اور پاکستان کے سفیروں کے درمیان اس طرح کی دوستی کی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔

رعنا کا ایوب سے ٹکراؤ

ڈپلومیسی کے شعبے میں کافی کامیاب ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ ان کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوئے اور ایوب خان نے انھیں تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

تہمینہ عزیز لکھتی ہیں کہ ایوب خان چاہتے تھے کہ وہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں حصہ لیں لیکن رعنا نے صاف انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں۔

جنرل ضیا سے ٹکراؤ

بیگم رعنا لیاقت علی کو ان کی خدمات کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا گیا انھیں مادرِ پاکستان کا خطاب بھی مِلا۔

تہمینہ بتاتی ہیں کہ 'جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تو انھوں نے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کی قیادت کی اور جنرل ضیا الحق کے اسلامی قوانین کی پرزور مخالفت کی۔‘

30 جون 1990 کو رعنا لیاقت علی نے آخری سانس لی۔

سنہ 1947 کے بعد پاکستان کو اپنا گھر بنانے والی رعنا لیاقت علی تین بار انڈیا آئیں لیکن ایک بار بھی الموڑہ واپس نہیں گئیں لیکن الموڑہ کو بھلا بھی نہیں پائیں۔ دیپا اگروال کہتی ہیں کہ وہ الموڑہ کے روایتی کھانے پسند کرتی تھیں اور ایک بار اپنے بھائی نارمن کو ان کی سالگرہ پر خط میں لکھا تھا ’آئی مِس الموڑہ'۔

Wednesday, October 9, 2019

قائد کے بعد کا پاکستان



قائداعظم محمد علی جناح کے 71 ویں یوم وفات پر تقریباً سب نے ہی یہ عہد کیا کہ وہ ان کے بتائے ہوئے مشن پر چلیں گے مگر چل کر کسی نے نہیں دیا۔ اب تو خیر اتنی بھی فرصت نہیں کہ کم از کم 25؍دسمبر، 11؍ستمبر اور 14؍اگست پر صدر و وزیراعظم آکر فاتحہ ہی کر لیا کریں۔ لگتا ہے قائد کو بھی 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی مسئلہ بنا دیا ہے۔

یہ حال سارے حکمرانوں کا ہے کیونکہ زیر زبر کے بغیر صرف نام تبدیل ہوتے ہیں، بیانات ایک ہی جیسے دیئے جاتے ہیں۔ آئیں ذرا دیکھیں یہ پاکستان قائد کے تصور پاکستان سے کتنا مختلف ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بلا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔ 

ان تین اداروں پر قائد کی وفات کے بعد سب سے پہلا حملہ ہوا، بدقسمتی سے جس تیزی کے ساتھ ان کے سیاسی افکار کے خلاف عمل شروع ہوا اس سےیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود پاکستان مسلم لیگ کا شیرازہ اتنی جلدی کیوں بکھر گیا۔

ابھی تو انتقال کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ ان کی 11؍اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر کو متنازع بنا دیا گیا۔ اس تقریر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ بانی پاکستان کا پالیسی بیان تھا جو آئین کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔

سازشیں آہستہ آہستہ بے نقاب ہونا شروع ہو گئیں اور ابتدأ سے یہ نظر آنے لگا کہ لیگ کی مغربی پاکستان کی قیادت اکثریتی مشرقی پاکستان کو اقتدار دینے کو تیار نہیں۔ 

اس میں انڈین سول سروس سے آئے ہوئے لوگ بھی شریک تھے اور یہاں کے سیاستدان بھی۔ لہٰذا پہلے دس برس میں سیاسی طور پر بائیں بازو کی جماعتوں اور سیاست پر حملہ ہو گیا۔ جس کی ابتدا کمیونسٹ پارٹی پر پابندی سے ہوئی۔

دوسرا اظہار رائے کی آزادی پر اور تیسرا جسٹس منیر کی شکل میں جمہوریت آئین اور قانون پر ہوا۔ ایسی ہی ایک سازش کے نتیجے میں قائد کے دست راست اور پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ (نام بعد میں رکھا گیا) راولپنڈی میں جلسے کے دوران شہید کردیا گیا۔

یہ سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی کیونکہ بات اندر تک پہنچ گئی تھی لہٰذا کیس دبا دیا گیا۔ بعد میں جس طرح خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ، نوکر شاہی اور عدلیہ بھی شریک جرم رہیں اور پھر وہی ہوا جس کا شاید تصور بھی قائد کے پاکستان میں نہیں تھا، یعنی مارشل لاء۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ بانیانِ پاکستان یا مسلم لیگ کی قیادت اس طرح بکھر جائے گی۔ 

ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے ہی دو اہم کام ہوئے۔ پہلا ون یونٹ کا قیام جس کا مقصد وہی تھا اکثریت کو شراکت اقتدار سے دور رکھنا اور دوسرا بائیں بازو کی سیاست کو امریکہ کے ساتھ وفاداری کو ثابت کرنے کے لئے کچلنا۔ راولپنڈی سازش کیس ہو یا کیمونسٹ پارٹی پر پابندی، (رہنمائوں کی گرفتاری سب اسی سلسلے کی کڑی تھیں) یا 1935میں طلبہ پر گولی چلانا یا حسن ناصر کی شاہی قلعہ میں ہلاکت جیسے واقعات نے بڑے سوالات کھڑے کیے۔ لہٰذا قائداعظم کے تصور سیاست کا خاتمہ تو پہلے دس سال میں ہی کر دیا گیا۔

اب چاہے الزام سیاست دانوں پر ڈالیں یا بیورو کریسی پر یا عدلیہ کے کردار پر۔ مولوی تمیز الدین کے مقدمے میں نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر جناح کے قانون کی حکمرانی کے خواب کو بھی چکنا چور کر دیا گیا۔

ہمارے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ہر دوسرا سیاستدان آمریت کی پیداوار ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے۔ اگر حکمرانی آمریت کی شروع سے ہو گی تو پیداوار جمہوریت کی کیسے ہو سکتی ہے۔

کبھی بنیادی جمہوریت کے نام پر تو کبھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے نام یہ ہی تماشا لگا رہا اور عدلیہ ہر آنے والے آمر کو نظریہ ضروررت کی سند دیتی رہی۔ جناح خود ایک نامور قانون دان تھے اور وہ آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے مگر نہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا اور نہ ہی اس وقت کے سیاست دانوں نے۔

مولوی تمیز الدین کے کیس سے لےکر نصرت بھٹو اور ظفر علی شاہ کے مقدمات تک یہ نظریہ ضرورت، آمروں کے نجات کا راستہ بنا جس کے نتیجے میں آمرانہ طرز حکمرانی قائم رہا۔

قائداعظم ایک انتہائی صاف گو، شفاف سیاستدان تھے مگر ہم نے سیاست کو ہی گالی بنا دیا۔ اب تو کرپشن آپ کو سیاست کی میراث تک لے جاتی۔ معاشرہ میں جو جتنا کرپٹ ہوگا اس کی اتنی ہی عزت ہوگی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب اجتماعی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ آج کوئی حسن ناصر، نظیر عباسی نہیں ہے کوئی فیض احمد فیض۔ حبیب جالب یا احمد فراز پیدا نہیں ہو رہا۔

رہی بات نظریاتی بحث کی تو آپ جس نظریہ کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے تو آپ کا یہ جمہوری حق ہے کہ آپ اس رائے کیلئے جدوجہد جاری رکھیں مگر کچھ چیزوں پر تو اتفاق رائے ہو ہی سکتا ہے مثلاً جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور اظہار رائے کی آزادی۔ اب پچھلے 72برسوں میں کس کا کیا کردار رہا اور وہ کس حد تک ان اقدار کے ساتھ رہا۔

سفر لمبا ہے کم سے کم ابتدا اس سے کر لیجیے کہ قائد کے شہر کو کوئی کم سے کم کچراچی نہ کہے کراچی کہے۔ کم سے کم 25؍دسمبر ، 14؍اگست اور 11ستمبر کو ہمارے صدر و وزیراعظم تو مزار پر حاضری یقینی بنا ہی سکتے ہیں۔

باقی تو اب صرف نوٹ والا قائد باقی ہے اور وہ اگر گندا ہو جائے تو دکان دار بھی نہیں لیتا اور خریدار بھی نہیں۔ رہی بات سازشی تھیوری اور افواہوں کی تو بد قسمتی سے یہ اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ 


Copied#

Saturday, October 5, 2019

ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا




انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی 150 سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ یاروں نے سوال کیا ہے کہ پاکستان میں لوگ گاندھی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پہلے تو خیال آیا کہ کہہ دیں کہ ہمارے گھر میں اپنے ہی اتنے سارے پنگے ہیں کہ ہمیں گاندھی کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں ملا۔

پھر مجھے یاد آیا کہ ہمیں سکول میں گاندھی کے بارے میں بس اتنا پڑھایا گیا تھا کہ وہ ہندو تھے، باقی بات آپ خود سمجھ لیں۔

اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ گاندھی مکار تھا، گاندھی بنیا تھا، پاکستان بننے کے بالکل خلاف تھا، بھارت ماتا کی پوجا کرتا تھا، ہم مسلمانوں نے صدیوں تک جو ہندوؤں پر حکومت کی وہ ان کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

گاندھی کے مقابلے میں ہمارا بابا قائد اعظم تھا۔ وہ لندن سے پڑھا لکھا وکیل، اس نے گاندھی کا گریبان پکڑ کر ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ پاکستان لے لیا۔

تھوڑا بڑا ہوا تو فلم 'گاندھی' دیکھ کر پتہ چلا کہ ہندوؤں کا بابا کوئی ملنگ سا آدمی تھا جو ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑنے سے پہلے جنوبی افریقہ میں بھی گوروں سے دو دو ہاتھ کر چکا تھا۔

فلم پر پاکستانیوں کو اعتراض تھا کہ گورے ہدایتکار نے ہندوؤں کے بابے کو ہیرو بنا دیا اور ہمارے بابے کو کوئی خبطی ولن دکھایا ہے۔

ہم گاندھی اور جناح کی پرانی تصاویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان تصاویر میں ہمارے بابے نے استرے کی دھار سے تیز لندن سے سلوایا سوٹ پہنا ہوتا ہے اور ہاتھ میں ولایتی سگریٹ پکڑا ہوتا ہے۔ ایک سیانے نے کہا کہ جب پاکستان میں پچاس ہزار کا نوٹ بنایا جائے گا اس وقت اس تصویر کو اس نوٹ پر لگایا جائے گا۔

ان تصویروں میں مہاتما گاندھی نے اپنی آدھی دھوتی اٹھائی ہوتی ہے اور ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑی ہوتی ہے۔ کچھ تصاویر میں دونوں بابے ہنس بھی رہے ہیں۔ اگر ان دونوں کو معلوم ہوتا کہ مستقبل میں ان کے ہندوستان۔پاکستان کا کیا ہونے والا ہے تو شاید وہ گلے مل کر رو بھی پڑتے۔

دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔۔۔

ایک تصویر میں مہاتما گاندھی ہاتھ اٹھا کر بحث کر رہے ہیں گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ 'ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔' ہمارے بابے قائد اعظم نے ولایتی سگریٹ کے کش لگا کر ایسا منھ بنایا جیسے کہہ رہے ہوں، 'یار گاندھی، تم جلدی کرو، اب ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، بٹوارہ تو ہو کر ہی رہے گا۔'

ہمارے بابے قائداعظم نے اتنی انگریزی بولی کہ گوروں نے بھی مان لیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قوم ہیں، راتوں رات دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔ باقی کاٹنے اور پھاڑنے کا انتظام ہم نے خود کر لیا۔ ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا۔

ہندوستان اور پاکستان کے بننے کے اگلے ہی سال دونوں بابے چل بسے۔ ایک کو تپ دق کھا گئی اور ایک کو اسی کے ہندو بھائی نے گولی مار دی۔

ہمیں بچپن میں گاندھی سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔ ایک بزرگ اردو مصنف نے ایک بار لکھا تھا: 'سوچو، اگر پاکستان نہ بنتا تو گاندھی جیسا کوئی ہندو آپ کے دروازے پر دھوتی اٹھا کر مُوت رہا ہوتا۔'

اچھا ہوا، ہم نے زیادہ تر ہندو یہاں سے بھگا دیے۔ اب ایک دوسرے کے دروازے پر موتنے کا کام ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔

’اب تم صرف نوٹوں پر نظر آؤگے‘

اس طرف جس گاندھی کو ہم بڑا ہندو سمجھتے تھے اسے نئے ہندوؤں نے کہا: 'چلو تم اتنے بھولے ہندو ہو کہ نئے ہندوستان میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب تم صرف نوٹوں پر نظر آؤگے۔'

ہندوستان میں ابھی ان لوگوں کا راج ہے جو گاندھی کے قاتل کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ پہلے پاکستان میں گاندھی کا نام گالی ہوتا تھا اب ہندوستان میں بھی کلنک بن گیا ہے۔

وہاں پر موجود ہمارے بھائی سوچتے ہوں گے کہ جنھوں نے اپنے بابے کو نہیں چھوڑا وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔ یہاں ہم کہتے تو نہیں لیکن کبھی کبھی سوچتے ضرور ہیں کہ ان نئے والوں سے تو گاندھی ہی اچھا تھا۔

تحرير: محمد حنيف

Monday, September 23, 2019

تقسیم ہند: کیا انڈیا سے آئے جونا گڑھ کے رہائشیوں کو پاکستان کی شہریت مل سکتی ہے؟




پير کے روز سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شمس الدین عباسی پر مشتمل ڈویزن بینچ کے روبرو ایک ایسی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں جونا گڑھ کے ایک رہائشی نے پاکستان کی شہریت نہ ملنے کی شکایت کی۔


درخواست گزار چھوٹو میاں کے مطابق ان کا چار افراد پر مشتمل خاندان سنہ 2007 میں پاکستان منتقل ہوا تھا تاہم انھیں پاکستان کی شہریت نہیں دی گئی۔

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان سے الحاق کیا تھا لہذا جونا گڑھ کے رہائشی پاکستان کے شہری ہیں۔

تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میں ایسی کئی ریاستیں تھیں جہاں نوابوں کی حکومتیں تھیں۔ ایسی ہی ایک ریاست گجرات کے جنوب مغربی ساحلی خطے میں واقع جونا گڑھ تھی۔

اس ریاست کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی لیکن ریاست کے نواب نے پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ آزادی کے چند مہینے بعد اس ریاست کو باضابطہ طور پر انڈیا میں ضم کر لیا گیا تھا۔

تو اب ریاست جونا گڑھ کے شہریوں کی حیثیت کیا ہے، اور کیا انھیں پاکستان کی شہریت دی جاسکتی ہے؟

سندھ ہائی کورٹ نے اس سارے معاملے پر حکومتِ پاکستان سے مؤقف طلب کر لیا ہے۔

چھوٹو میاں کے وکیل ایڈووکیٹ سید سکندر نے بی بی سی کو بتایا کہ قیام پاکستان سے جونا گڑھ کے لوگ پاکستان منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست پاکستان انھیں شہریت دینے کی پابند ہے لیکن کچھ عرصے سے چونکہ یہ سلسلہ رک گیا تھا، اس لیے حکام کو معلوم نہیں۔‘

’نہ سرکاری وکیل کو یہ معلوم ہے کہ نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کیا تھا اور نہ جج صاحبان کو۔ اس لیے عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے مؤقف طلب کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔‘

ایڈووکیٹ سید سکندر کے مطابق جونا گڑھ پر قیام پاکستان کے دو ماہ کے بعد انڈیا نے قبضہ کرلیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کر رکھا ہے۔

اس بارے میں انھوں نے آئین کے آرٹیکل 2 ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور پاکستان بھی جونا گڑھ کے شہریوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیتا ہے۔

دستور پاکستان کی اس شق کے تحت یہ تب لاگو ہو گا جب ایسی ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے پاکستان میں شامل ہیں یا ہو جائیں۔

جبکہ اگلی شق میں مجلس شوریٰ بذریعہ قانون وفاق میں نئی ریاستوں یا علاقوں کو اس شرط پر شامل کر سکتی ہے جن کو وہ مناسب سمجھے۔ تاہم اس سے پہلے والی شق میں پاکستان کی جغرافیائی حدود خیبرپختونخواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب پر مشتمل قرار دی گئی ہیں۔

جونا گڑھ میں کیا ہوا تھا؟

آئیں اب تھوڑا ماضی کو یاد کر لیتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم سے قبل 262 ریاستوں اور راجوڑوں کو پاکستان، انڈیا یا آزادانہ حیثیت میں رہنے کا حق دیا تھا۔ ان ریاستوں میں جونا گڑھ کی ریاست بھی شامل تھی جس کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔

ریاست جونا گڑھ انڈین گجرات کے کاٹھیاواڑ ریجن میں واقع ہے۔ یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر پر مشتمل تھی۔ اس کی زمین سرسبز جبکہ ایک حصہ بحیرہ عرب سے ملتا تھا۔

اس ریاست میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی جبکہ حکمران مسلمان خاندان تھا۔

پاکستان کے ساتھ الحاق:

تقسیم ہند کے دوران جونا گڑھ کے نواب محمد مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 15 ستمبر 1947 کو پاکستان نے سرکاری گزیٹیئر بھی جاری کیا۔ تاہم اس ریاست کی پاکستان سے کہیں سے بھی سرحدیں نہیں ملتی تھیں۔

اس فیصلے پر مقامی لوگوں نے بغاوت کی جس کی بنیاد پر انڈین فورسز جونا گڑھ میں داخل ہو گئیں۔

پرنسیلی افیئرز کے مصنف یعقوب خان بنگش لکھتے ہیں کہ نواب آف جونا گڑھ کے دیوان سر شاہنواز بھٹو تھے۔

نواب نے اپنے دیوان کو کہا کہ اب وہ جو بہتر سمجھیں فیصلہ کریں۔ دیوان نے ریجنل کمشنر کو خط لکھا کہ آپ انتظامیہ کی معاونت کریں تاکہ خون خرابے اور جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے۔ اس طرح 9 نومبر 1947 کو انڈیا نے امن و امان کی بحالی کے نام پر ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔

پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں سخت احتجاج کیا اور انڈیا کے اقدام کو پاکستان اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

جواہر لال نہرو نے انڈین فورسز ہٹانے سے انکار کیا اور عوام سے رجوع کرنے کا وعدوہ کیا۔ اس کے بعد ریفرنڈم منعقد کیا گیا اور انڈین فوج کے زیر انتظام رائے شماری میں 19 ہزار سے زائد ووٹ انڈیا کی حمایت میں جبکہ 91 ووٹ پاکستان کے حق میں کاسٹ کیے گئے۔


نواب آف جونا گڑھ کی پاکستان آمد:

انڈیا سے اس ریاست کے الحاق کے بعد نواب آف جونا گڑھ مہابت خانجی اہلخانہ، دیوان شاہنواز بھٹو اور اپنے پالتو کتوں کے ہمراہ بذریعہ جہاز پاکستان پہنچ گئے جبکہ ان کی ایک بیگم اور ایک بچہ وہاں ہی رہ گئے۔ لیکن وہ کبھی واپس نہ جا سکے۔

نواب مہابت خانجی 7 نومبر 1959 کو انتقال کر گئے۔ انھوں نے ورثا میں ایک بیوہ اور 17 لواحقین چھوڑے۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے نواب دلاور خانجی کو جان نشین قرار دیا گیا اور اس کے بعد جہانگیر نواب قرار پائے۔

املاک پر اختلاف:

نواب آف جونا گڑھ کی املاک پر خاندان میں اختلافات سامنے آئے اور معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں جا پہنچا۔

سنہ 1963 میں کمشنر کراچی نے ریاست جونا گڑھ کی املاک کو دو حصوں میں تقیسم کیا جس میں سے ایک حصہ نواب دلاور کو دیا گیا جبکہ دوسرے ورثا میں نقد رقم تقیسم کرنے کا فیصلہ کیا۔

دیگر ورثا نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شرعی قوانین کی روشنی میں اس کو ہائیکورٹ میں چیلینج کردیا جس کا فیصلہ ابھی تک رکا ہوا ہے۔

نواب آف جونا گڑھ کی املاک میں انڈین حکومت کے پاس 12 ملین روپے، حکومت پاکستان کے پاس تین ملین روپے، کراچی میں کروڑوں روپے مالیت کا جونا گڑھ ہاؤس، ملیر میں 16 ایکڑ پر مشتمل باغ، حیدرآباد میں روپ محل، ٹنڈو حیدر میں زرعی باغ، ٹنڈو محمد خان میں 500 ایکڑ زرعی زمین، زیوارت اور ہیرے جواہرات شامل ہیں۔

پرانے وعدے اور شکوے:

جونا گڑھ کے موجودہ نواب خانجی جہانگیر نے چند سال قبل ایک پریس کانفرنس میں شکوہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کو پاکستان آنے کے ساتھ شہریت مل گئی لیکن بعد میں آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے داخلے میں کوٹہ ہوتا تھا جس کو اب ختم کردیا گیا۔

نواب آف جونا گڑھ کو ڈیوٹی فری گاڑیوں اور الیکٹرونکس مصنوعات امپورٹ کی بھی اجازت تھی جس کو بعد میں واپس لے لیا گیا۔