Tuesday, October 29, 2019

بلوچستان يونيورسٹی: لرزہ دينے والے انکشاف



تحرير: محمد کاظم

پاکستان میں صوبہ بلوچستان کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں ہراسانی کے حوالے سے جو دعوے سامنے آئے ہیں وہ خدا کرے کہ درست نہ ہوں کیونکہ اگر وہ درست ہوئے تو پھر ہم اس قابل نہیں کہ انسان کہلوائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ 'اے گریڈ چاہیے یا فیل ہونا ہے، سکالر شپ پر آسٹریلیا جانا ہے یا امریکہ جانا ہے یا کہیں نہیں جانا۔'

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم سب نے مل کر دو کام کرنے ہیں ایک یہ کہ یونیورسٹی کی ساکھ بحال ہواور دوسرا یہ کہ جو لوگ ہراسانی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

یہ ریمارکس انھوں نے یونیورسٹی میں طالبات کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم دو رکنی ڈویژنل بینچ نے کی۔

سماعت کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کے پارلیمانی کمیٹی کے اراکین، یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر محمد انور پانیزئی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے نمائندوں کے علاوہ وکلا کی بہت بڑی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے کے حکام نے ایک مرتبہ پھر یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں کے استعمال کے حوالے سے ایک رپورٹ اس درخواست کے ساتھ پیش کی کہ تحقیقات مکمل ہونے تک اسے افشاں نہ کیا جائے، تاہم چیف جسٹس نے ایف آئی اے کی رپورٹ سے بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو آگاہ کرنے کے لیے انھیں اپنے چیمبر میں طلب کیا۔

قائم مقام وائس چانسلر کی بے بسی

سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے قائم مقام وائس چانسلر سے کہا کہ وہ قانون کی مطابق کارروائی کریں تو وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہے۔

چیف جسٹس نے انھیں کہا کہ قانون کے تحت انہیں ہراسانی سے متعلق معاملات کی تحقیقات اور اس کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار ہے۔

انھوں نے وائس چانسلر کو کہا کہ اگر وہ قانونی کے مطابق کارروائی نہیں کر سکتے تو وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔

بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے کیا کہا؟

بلوچستان اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین چیئر پرسن مہ جبین شیران کی قیادت میں پیش ہوئے۔

چیئر پرسن نے کہا کہ انہیں ہراسانی کے حوالے سے بہت ساری شکایتیں فون اور واٹس ایپ پر موصول ہوئیں لیکن متائثرین میں سے تاحال کوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا۔

کمیٹی کے رکن ثنا بلوچ نے کہا کہ یونیورسٹی میں بڑی تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں لیکن ان کو استعمال کے حوالے سے کوئی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں جو لوگ سکیورٹی یا سی سی ٹی وی کو آپریٹ کرنے پر معمور ہیں ان کی اخلاقی اور ہمارے سماجی اقدار کے حوالے سے تربیت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت لوگوں کی نگاہیں عدلیہ، بلوچستان اسمبلی اور ایف آئی اے پر لگی ہوئی ہیں۔

اسمبلی کی رکن شکیلہ نوید دیوار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ عرصہ بیشتر سکیورٹی اہلکار گرلز ہاسٹل میں رات کو آئے اور وہاں کمرہ نمبر دو کو خالی کرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں لڑکیاں چیختی رہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور رات کو یہ لوگ کیوں آئے ہیں؟

انھوں نے بتایا کہ جب کمیٹی کے اراکین نے ہاسٹل کے چوکیدار سے پوچھا کہ انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو کیوں چھوڑا تو ان کا جواب یہ تھا کہ وہ ہاسٹل کے دروازے سے نہیں آئے بلکہ سیڑھیاں لگا کر اندر داخل ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ اس کی ویڈیو بھی ہے جسے وہ چیمبر میں فاضل ججوں کو دکھائیں گی۔

اس بات پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے کہا کہ سکیورٹی اہلکار وہاں حفاظت کے لیے ہیں یا لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کے نمائندے نے کیا کہا؟

ہراسانی کی خبروں کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اراکین نے بھی یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔

کمیشن کے بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کمیشن کے اراکین نے نہ صرف اب یونیورسٹی کا دورہ کیا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بھی یونیورسٹی کے امور کا جائزہ لیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے اندر فرنٹیئر کور کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا گھر، جمنازیم اور ایک ٹیچرز ہاسٹل بھی ایف سی کے استعمال میں ہے۔

انھوں نے کہا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی کافی ہے اس لیے ایف سی کے اہلکاروں کی یونیورسٹی کے اندر تعیناتی کی ضرورت نہیں ہے۔

اس موقع پر ایک خاتون وکیل جمیلہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایف سی کے اہلکاروں نے یونیورسٹی کے اندر ایک تفتیشی مرکز بھی بنایا ہے جہاں وہ باہر سے لوگوں کو گرفتار کرکے تفتیش کے لیے لاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر کو ہدایت کی کہ وہ جمنازیم، ٹیچرز ہاسٹل اور وائس چانسلر کے گھر کو دو دن کے اندر ایف سی کے اہلکاروں سے خالی کرائیں۔

ہراسانی سے متاثرہ کوئی شخص ایف آئی اے پیش نہیں ہوا

بلوچستان کے قبائلی ماحول کی وجہ سے ہراسانی کے متاثرہ کوئی بھی خاتون ایف آئی اے میں کیس رجسٹر کرانے کے لیے سامنے نہیں آئیں جس پر عدالت کے کہنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شہک بلوچ شکایت کنندہ بننے تھے۔

انہوں نے سماعت کے دوران بھی ہراسانی کے ایک کیس کا حوالہ دیا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ 'ایک ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ کو اس کے ایک ٹیچر نے کہا کہ آپ کا سمسٹر ڈراپ ہو رہا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں اس کو ڈراپ نہیں ہونے دوں گا۔اس طالبہ کو اس کے ڈیپارٹمنٹ کے دو ٹیچروں نے تین گھنٹے تک اپنے پاس بٹھائے رکھا۔'

انھوں نے کہا کہ ہراسانی کے حوالے سے اب تک یونیورسٹی کے چھوٹے گریڈ کے چار اہلکاروں کو معطل کیا گیا لیکن معاملے کو اس سے آگے کیوں نہیں بڑھا گیا۔

انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کل ایف آئی اے والے آئیں گے اور یہ بتائیں گے کہ متاثرین میں سے کوئی سامنے نہیں آیا اس لیے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتائیں گے کہ آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے فلاں فلاں گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کیا جائے ۔

تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایسا نہیں ہونے دے گی کیونکہ یہ معاملہ نہ صرف اس بینچ کے اراکین دیکھ رہے ہیں بلکہ عدالت کے تمام جج اس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وائس چانسلر اور ایف آئی اے کے حکام کو کہا کہ 'جو بھی ان واقعات میں ملوث ہو ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کریں خواہ اس میں میں خود (چیف جسٹس ) ہی کیوں نہ ہوں۔'

انھوں نے کہا کہ متاثرین کو ایف آئی اے یا بلوچستان اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے تاکہ ان واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

عدالت نے کیا احکامات دیے؟

عدالت نے کیس کی سماعت 15دن بعد تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے کے حکام کو حکم دیا کہ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھیں۔

عدالت نے وائس چانسلر کو حکم دیا کہ وہ یونیورسٹی کی جمنازیم، وائس چانسلر کے گھر اور ٹیچرز ہاسٹل سمیت ان تمام مقامات کو ایف سی اہلکاروں سے خالی کرائیں جو کہ طلبا اور اساتذہ کے لیے مختص ہیں۔

عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران یہ دلائل بھی سامنے آئے کہ یونیورسٹی کے اندر فرنٹیئر کور کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے کہا کہ چیف سیکرٹری، وائس چانسلر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کواس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ایف سی کی ضرورت ہے تو ان کے لیے یونیورسٹی کے باہر کون سی جگہ مختص ہونا چاہیے۔

Wednesday, October 23, 2019

جناح کا بنگلہ


تحرير:  وویک شکلا

سات اگست سنہ 1947 کا دن تھا محمد علی جناح وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے طیارے سے اپنی چھوٹی بہن فاطمہ جناح کے ساتھ کراچی کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔

ہرچند کہ جناح کی شناخت سے ممبئی کا تعلق زیادہ ہے لیکن انھوں نے سنہ 1940 سے 1947 کے درمیان زیادہ تر وقت دہلی میں ہی گزارا تھا۔ 

اس دن انھوں نے تپتی گرمی کے باوجود شیروانی پہنی تھی جب کہ عام طور پر وہ سوٹ پہنتے تھے۔ ایئر پورٹ پر انھیں رخصت کرنے بہت سے لوگ آئے تھے جن میں صنعت کار سیٹھ رام کرشن ڈالمیا بھی تھے۔

محمد علی جناح سنہ 1940 سے پہلے بھی دہلی آتے رہے تھے اور وہ امپیریئل ہوٹل میں ہی ٹھہرتے تھے جو ان کے شاہانہ مزاج سے مطابقت رکھتا تھا۔

جناح نے سنہ 1939 میں دہلی میں اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ اب ہوٹلوں میں رہنے سے بات نہیں بننے والی تھی اس لیے ان کے لیے ایک عدد بنگلے کی تلاش شروع ہوئی۔

کافی تلاش کے بعد 10 اورنگزیب روڈ (اب اے پی جے عبدالکلام روڈ) پر واقع بنگلہ خریدا گیا جس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ ایکڑ ہے۔ اس دو منزلہ بنگلے کا ڈیزائن ایڈورڈ لٹین کی ٹیم کے رکن اور کناٹ پلیس کے ڈیزائنر رابرٹ ٹور رسل نے تیار کیا تھا۔

دہلی میں ان کے غیر سیاسی دوستوں میں سردار سوبھا سنگھ (معروف صحافی اور مصنف خوشونت سنگھ کے والد) اور سیٹھ رام کرشن ڈالمیا بھی تھے۔

ڈالمیا کی بیٹی اور 'دی سیکرٹ ڈائری آف کستوربا' کی مصنفہ نيلما ڈالمیا نے بتایا: ’میرے والد سیٹھ رام کے محمد علی جناح کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ جناح کا ہمارے اکبر روڈ اور سکندرا روڈ پر واقع بنگلوں میں باقاعدگی سے آنا جانا رہتا تھا۔‘

ہمیشہ کے لیے دہلی چھوڑنے سے ایک دن قبل ڈالمیا کے سکندرا روڈ والے بنگلے پر جناح کو کھانے پر بلایا۔ ان کی بہن فاطمہ جناح بھی آئیں، رام کرشن ڈالمیا کی بیوی نندنی ڈالمیا بھی میزبانی کر رہی تھیں۔

نيلما بتاتی ہیں: ’چونکہ اگلے دن جناح جا رہے تھے اس لیے ماحول میں اداسی کا پہلو شامل تھا۔‘

پاکستان جانے سے پہلے جناح نے اپنا بنگلہ تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں ڈالمیا کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔ حالانکہ دونوں دوست تھے پھر بھی جناح ڈھائی لاکھ روپے سے کم پر بنگلہ فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

خریدنے کے بعد ڈالمیا نے بنگلے کو گنگا جل سے دھلوايا، جناح کے دہلی چھوڑتے ہی بنگلے کے اوپر لہرانے والے مسلم لیگ کا پرچم اتارا گیا، اور اس کی جگہ گوركشا تحریک کا پرچم لگوایا گیا، یعنی مسلمانوں کے غیر متنازع رہنما کی کٹر ہندووادی شخص سے گہری دوستی تھی۔

(خیال رہے کہ ہندو مذہب میں گنگا کے پانی کی بہت اہمیت اور یہ پاک تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کا ہر طرح کی مذہبی تقریب میں استعمال ہوتا ہے)

سنہ 1964 تک ڈالمیا نے جناح سے خریدے جانے والے بنگلے کو اپنے پاس رکھا اور پھر ہالینڈ حکومت کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ اس کے بعد سے اس بنگلے کا استعمال نئی دہلی میں ہالینڈ کے سفیر کی رہائش کے طور پر ہو رہا ہے۔

اس بنگلے میں پانچ بیڈروم، ایک بڑا ڈرائنگ روم، میٹنگ روم اور بار وغیرہ ہیں، آج اس کی قیمت سینکڑوں کروڑ روپے لگائی جاتی ہے۔

Tuesday, October 22, 2019

جوعالی ضرف ھوتےھيں ھميشہ جھک کے ملتے ھيں



تحرير: زنيرہ ضيا

وہ آیا اس نے دیکھا اور اس نے فتح کرلیا‘، شہزادی کیٹ مڈلٹن پر یہ محاورہ بالکل صادق آتا ہے۔ شہزادی کیٹ مڈلٹن اپنے شہزادے کے ساتھ آئیں اور اپنے لباس و انداز سے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو جیت کر چلی گئیں۔ اور دل ایسے فتح کیے کہ پاکستانی برسوں تک شہزادی اور شہزادے کی آمد کو بھول نہ پائیں گے، جیسے برسوں پہلے آئی ایک اور شہزادی لیڈی ڈیانا کو آج تک بھول نہیں پائے۔

شہزادی اور شہزادے کی آمد سے بہت عرصہ قبل میڈیا پر مسلسل خبریں آرہی تھیں کہ برطانوی شاہی جوڑا پاکستان کا دورہ کرے گا یا شہزادہ ولیم اپنی شہزادی کے ساتھ پاکستان آئیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرے لیے اس وقت یہ عام سی بات تھی بلکہ میں یہ سوچ رہی تھی پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن اگرپاکستان آئیں گے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے، بہت سے ممالک کے بااثر لوگ اپنے وفد کے ہمراہ اکثر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں اس میں اتنی خاص بات کیا ہے؟۔ میری سوچ کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب پرنس ولیم کی ماں لیڈی ڈیانا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو میں بہت چھوٹی تھی اور اتنی باشعور نہیں تھی کہ اکثر دوروں پر آئے غیر ملکی وفود اور کسی شہزادی کی اپنے ملک میں آمد میں فرق کرسکوں، لہذا شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کا دورہ بھی میرے لیے بالکل عام بات تھی لیکن 14 اکتوبر کی رات کو  یہ عام بات بہت خاص بن گئی، جب میں نے ٹی وی پر شہزادے اور شہزادی کو دیکھا۔

ہر لڑکی کا بچپن شہزادہ اور شہزادی کے قصے کہانیاں سنتے ہوئے گزرتا ہے لڑکیاں بچپن ہی سے اپنے ذہن میں شہزادے اور شہزادی کی شبیہ بنالیتی ہیں جس میں سفید گھوڑے پر سوار انتہائی خوبصورت راجکمار،  حُسن کی دیوی جیسی راجکماری کے ساتھ ہنسی خوشی  زندگی گزارتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا جاتا ہے شہزادہ شہزادی کی یہ کہانیاں ذہن میں ماند پڑتی جاتی ہیں اور بالآخر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ذہن سے شہزادے اور شہزادی کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن 14 اکتوبر کی رات میرے ذہن سے محو ہونے والی تمام کہانیاں جیسے ایک بار پھر زندہ ہوگئیں۔ میں ٹی وی پر حقیقی شہزادے اور شہزادی کو دیکھ رہی تھی جو انتہائی خوبصورت محل میں رہتے ہیں اور ہمارے ملک میں ہمارے مہمان بن کر آئے ہیں۔

پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کو دیکھ کر میرا نظریہ تبدیل ہونے کی ایک وجہ صرف ان کا شہزادہ اور شہزادی ہونا نہیں تھا بلکہ ان کا وہ شاہی انداز تھا جو انہیں دوسروں سے ممتاز بنا رہاتھا۔ شہزادی کیٹ مڈلٹن نے پاکستان کے دورے کے موقع پر جس لباس کا انتخاب کیا وہ کمال تھا حالانکہ وہ برطانیہ کی شہزادی تھیں اور چاہتیں تو اپنے روایتی لباس میں پاکستان آتیں اور 5 روز گھوم پھر کر واپس چلی جاتیں۔ لیکن دورہ پاکستان سے قبل شاید انہوں نے طے کرلیا تھا کہ اس دورے کو ایک روایتی دورہ نہیں بنانا بلکہ اپنی ساس لیڈی ڈیانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے ایسا یاد گار دورہ بنانا ہے، جس کے نقوش برسوں تک نہیں مٹ سکیں گے اور کیٹ مڈلٹن اپنے اس مشن میں کامیاب بھی ہوئیں۔ شہزادی کیٹ نے پاکستان آمد کے موقع پر ایسے لباس کا انتخاب کیا جس سے مشرقی روایات اور ثقافت کی بھرپور عکاسی ہورہی تھی۔ کیٹ مڈلٹن نے دورہ پاکستان کےپہلے روز آسمانی رنگ کی سادہ لیکن پُروقار شلوار قمیض کا انتخاب کیا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اپنے دورے کے پہلے ہی روز کیٹ مڈلٹن اپنے لباس، انداز اور اسٹائل سے پاکستانیوں کے دلوں میں گھر کر چکی تھیں۔

شاہی جوڑے نے پاکستان آمد کے دوسرے روز  باقاعدہ دورے کا آغاز کیا اور صبح ہی صبح دونوں ننھے منے بچوں سے ملاقات کرنے اسلام آباد کےایک سرکاری اسکول میں پہنچ گئے۔

اسکول کے دورے کے دوران کیٹ مڈلٹن نے نیلے رنگ کی کڑھائی والی شلوار قمیض اور دوپٹہ زیب تن کیا۔ ان کا یہ لباس بھی سادگی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا اور پھر جس طرح یہ شاہی جوڑہ اسکول کے ننھے منے بچوں کے ساتھ گھل مل گیا ایسا لگا یہ کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ہیں جو بہت دور سے آئے ہیں۔ کیٹ مڈلٹن اور شہزادہ ولیم کے انداز سے بالکل بھی ظاہر نہیں ہورہا تھا کہ یہ کسی ریاست کے شہزادہ شہزادی ہیں۔ نہ غرور، نہ امارات کا رعب بلکہ اپنے دورے کے پہلے ہی روز دونوں نے ثابت کردیا کہ وہ پاکستانیوں کو یہ دورہ برسوں تک بھولنے نہیں دیں گے۔

بچوں سے ملاقات کے بعد شاہی جوڑا صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچا۔ اس موقع پر کیٹ مڈلٹن نے سبز رنگ کی قمیض، سفید شلوار اور دوپٹے کا انتخاب کیا اور بلاشبہ ان کے انتخاب کی داد دینی پڑے گی۔ اس موقع پر یہ رنگ پہن کر انہوں نے ثابت کیا کہ انہیں پاکستانی کلچر اور ثقافت کا کتنا احترام ہے۔ لیکن دورے کے دوسرے روز کی رات تو شاید پورے دورے پر بازی لے گئی۔ اس رات کو شاہی جوڑے کے اعزاز میں برطانوی ہائی کمیشن نے اسلام آباد میں قومی یادگار پر عشائیے کی تقریب منعقد کی تھی اور اس تقریب میں دونوں کی آمد کسی دلہا دلہن کی آمد سے کم نہیں تھی۔

عشائیے کی تقریب میں شہزادہ ولیم نے پہلی بار سبز رنگ کی شیروانی زیب تن کی، لیکن کیٹ مڈلٹن کے تو انداز ہی الگ تھے ،کیٹ نے دلہن کی طرح سبز رنگ کے ستاروں سے جھلماتے لباس کا انتخاب کیا اور  شاہی جوڑے نے رنگ و نور سے سجے رکشے میں  تقریب میں پہنچ کر پورے پاکستان کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔ لوگ شاہی جوڑے کے لباس ، انداز اور رکشے میں انٹری پر دل و جان سےفدا ہوگئے اور شہزادہ شہزادی کی جانب سے مشرقی روایات کا احترام کرنے پر پورے سوشل میڈیا میں دونوں کی خوب واہ واہ ہوئی۔

اگلے روز شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ چترال کی حسین وادیوں میں پہنچے۔ چترال کی خوبصورت وادیوں میں پہنچ کر دونوں آسمان سے اترے دیوی دیوتا لگ رہے تھے۔ آج سے 23 سال قبل آنجہانی لیڈی ڈیانا نے بھی دورہ پاکستان کے دوران چترال کو خاص اہمیت دی تھی اور چترال کا حسن دیکھنے پہنچی تھیں۔ لہٰذا ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ جہاں لیڈی ڈیانا نے اپنے نقش چھوڑے وہاں ان کا بیٹا اور بہو نہ جائیں۔ اپنے دورے کا تیسرا دن شاہی جوڑے نے چترال کی حسین وادیوں میں گزارا اور اس موقع پر بھی کیٹ مدلٹن کے لباس نے پورے پاکستان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔

شہزادی نے دورہ پاکستان کے دوران لباس کے معاملے میں بالکل بھی سمجھوتہ نہیں کیا اورایسے لباس کا انتخاب کیا جس سے مشرقی روایات کے لیے احترام جھلکتا ہو۔ لہذا اب تو پاکستانیوں کی نظریں بے تابی سے شہزادی کے اگلے دن کے دورے پر تھیں اورلوگ یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ شہزادی کیٹ مڈلٹن اپنے دورے کے اگلے روز کس لباس کا انتخاب کرتی ہیں۔ لیکن کیٹ مڈلٹن نے پاکستانیوں کو مایوس نہیں کیا۔ دورے کے چوتھے روز پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن لاہور میں یتیم و نادار بچوں سے ملاقات کرنے ایس او ایس ویلیج پہنچے اورتوقع کے مطابق کیٹ مڈلٹن نے اس موقع پر سفید کرتے، سفید ٹراؤزر اور سفید رنگ کا دوپٹہ اوڑھا۔

دورہ پاکستان کے دوران شہزادی کے مشرقی لباس وانداز کی سوشل میڈیا پر خوب واہ واہ ہورہی ہے اورلوگ انہیں مشرقی روایات کا احترام کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تھک نہیں رہے ہیں۔ 

Saturday, October 19, 2019

رعنا لیاقت علی: پاکستان کی خاتونِ اول




تحرير: ریحان فضل

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جمشید مارکر کہتے تھے کہ رعنا لیاقت علی جب کسی کمرے میں داخل ہوتی تھیں تو وہ کمرہ خود ہی روشن ہو اٹھتا تھا۔

ایک مرتبہ برج کھیلتے ہوئے لیاقت علی نے اپنے رہنما محمد علی جناح سے کہا کہ آپ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ جناح نے تپاک سے کہا 'مجھے دوسری رعنا لا دو، میں فوراً شادی کر لوں گا‘۔

رعنا لیاقت علی کی پیدائش 13 فروری 1905 میں شمالی ہند کے علاقے الموڑہ میں ہوئی تھی اور انکا نام آئرین روتھ پنت تھا۔ 

وہ کماؤں کے ایک برہمن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن بعد میں انھوں نے مسحيی ايمان قبول کر ليا تھا۔ 

رعنا لیاقت علی کی سوانحِ عمری 'دی بیگم' کی شریک مصنفہ دیپا اگروال بتاتی ہیں کہ وہ ایک آزاد خیال خاتون تھیں اور ان میں زبردست اعتماد تھا۔

86 سال کی اپنی زندگی میں انھوں نے 43 سال انڈیا میں جبکہ اتنا ہی عرصہ پاکستان میں گذارا۔ انھوں نے نہ صرف اپنی انکھوں کے سامنے تاریخ رقم ہوتے دیکھی بلکہ اس کا حصہ بھی بنیں۔

جناح سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سبھی کے سامنے وہ اپنی بات کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائیں۔ ایم اے کی اپنی کلاس میں وہ اکیلی لڑکی تھیں اور لڑکے انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کی سائیکل کی ہوا نکال دیتے تھے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر پشپیش پنت کا ننیھال بھی اسی جگہ تھا جہاں آیرین روتھ پنت کا خاندان رہا کرتا تھا۔ پروفیسر پشپیش پنت بتاتے ہیں کہ میں تقریباً 60 سال پہلے آٹھ یا دس برس کی عمر میں اپنی ننھیال والے مکان میں رہا کرتا تھا۔

’لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے کہ ان کی بہن پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بیاہی گئی تھیں اور ان لوگوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'رعنا کے دادا ایک اعلی ذات کے برہمن تھے اور وہاں کے مشہور وید یا حکیم تھے اور جب انھوں نے مسحيت کو قبول کيا تو پورے علاقے میں ہلچل مچ گئی تھی کیونکہ اکثر نیچی ذات کہے جانے والے لوگ ہی مذہب تبدیل کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد جب رعنا نے ایک مسلمان سے شادی کر لی تو لوگ اور باتیں کرنے لگے۔‘

اس دور میں الموڑے کے دقیانوسی معاشرے میں ماڈرن کہی جانے والی پنت بہنیں نہ صرف پورے شہر میں موضوعِ بحث ہوا کرتی تھیں بلکہ کچھ لوگ انھیں رشک کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے۔

مشہور ناول نگار کی بیٹی ایرا پانڈے لکھتی ہیں 'میرے نانا کے برابر والا گھر ڈینیل پنت کا تھا جن کا خاندان مسیحی مذہب قبول کر چکا تھا لیکن ایک زمانے میں وہ ہماری ماں کے رشتے دار ہوا کرتے تھے۔‘

ہمارے نانا نے ان کی دنیا کو ہماری دنیا سے الگ کرنے کے لیے ہمارے گھروں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی تھی اور ہمیں سخت ہدایت تھی کہ ہم دوسری جانب دیکھنے کی کوشش بھی نہ کریں۔‘

میری ماں شوانی نے لکھا تھا کہ 'ان کے گھر کے باورچی خانے میں پکنے والے ذائقے دار گوشت کی پاگل کر دینے والی مہک ہماری بے رونق برہمن رسوئی میں پہنچ کر ہماری دال اور آلو کی سبزی اور چاول کو شرمندہ کر دیتی تھی۔‘

'برلن وال' کے اس پار کے بچوں میں ہینری پنت میرے خاص دوست تھے اور ان کی بہنیں اولگا اور موریل جب اپنی جارجیٹ کی ساڑھی میں الموڑہ کے بازار میں چہل قدمی کرتی تھی تو ہم لوگ رشک سے مر ہی جاتے تھے۔

آئرین پنت یعنی رعنا کی تعلیم لکھنؤ کے لال باغ سکول اور پھر وہیں کے مشہور آئی ٹی کالج میں ہوئی۔

متعدد اہم مصنف جیسے قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، اور عطیہ حسین اسی کالج سے تعلیم حاصل کر کے نکلی ہیں۔

آئرین کی بچپن کی دوست مائلز اپنی کتاب 'اے ڈائنومو اِن سِلک' میں لکھتی ہیں 'وہ جہاں بھی ہوتی تھیں ان کے ارد گرد زندہ دلی ہوتی تھی۔ کالج میں لڑکے بلیک بورڈ پر انکی تصویر بنایا کرتے تھے لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔‘

مسلم لیگ کے رہنما لیاقت علی سے ان کی ملاقات بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں ان دنوں ریاست بہار میں سیلاب آیا ہوا تھا اور لکھنؤ یونیورسٹی کے طالب علموں نے فیصلہ کیا وہ ایک پروگرام کر کے وہاں کے لیے فنڈ جمع کریں گے۔

آئرین پنت جو لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کر رہی تھیں شو کے ٹکٹ فروحت کرنے پارلیمنٹ پہنچیں اور وہاں انھوں نے پہلا دروازہ کھٹکھٹایا وہ لیاقت علی خان نے کھولا۔

لیاقت ٹکٹ خریدنے میں جھجھک رہے تھے اور بڑی مشکل سے انھوں نے ایک ٹکٹ خریدا۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں آئرین نے کہا کہ کم از کم دو ٹکٹ تو خریدیں اور شو دیکھنے کے لیے کسی کو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔جواب میں لیاقت علی نے کہا کہ میں کسی کو نہیں جانتا جس کو اپنے ساتھ لاؤں اس پر آئرین بولیں میں آپ کے لیے ایک ساتھی کا انتظام کرتی ہوں اور اگر کوئی نہیں ملا تو میں ہی آپ کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھ لوں گی اور لیاقت ان کی یہ درخواست رد نہیں کر پائے۔

لیاقت علی اپنے دوست مصطفی رضا کے ساتھ شو دیکھنے پہنچے لیکن کافی تاحیر کے ساتھ۔

بعد میں آئرین اندرپرستھ کالج میں لیکچرار ہو گئیں۔ جب انھیں خبر ملی کہ لیاقت علی کو لیجیسلیٹیو اسمبلی کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے تو انھوں نے انھیں خط لکھ کر مبارکباد دی۔

جواب میں لیاقت علی نے لکھا کہ 'جان کر خوشی ہوئی آپ دلی میں ہیں جو میرے شہر کرنال کے بلکل نزدیک ہے اس بار جب میں لکھنؤ جاتے ہوئے دلی سے گزروں گا تو کیا آپ میرے ساتھ چائے پینا پسند کریں گی؟‘

آئرین نے ان کی دعوت قبول کی اور یہیں سے ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 16 اپریل 1933 کو بات شادی تک پہنچ گئی۔

لیاقت علی ان سے دس سال بڑے تھے اور پہلے سے شادی شدہ اور ایک بچے کے باپ بھی۔ لیاقت علی کی شادی ان کی کزن جہاں آرا سے ہو چکی تھی اور ان کے بیٹے کا نام وِلایت علی خان تھا۔

بہر حال ان کی شادی ہوئی اور جامع مسجد کے امام نے ان کا نکاح پڑھوایا اور آئرین نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام گل رعنا رکھا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں اس وقت لیاقت علی سیاسی افق کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے تھے اور محمد علی جناح کے بہت نزدیک بھی۔

دیپا اگروال بتاتی ہیں کہ لیاقت علی کو فوٹو گرافی کا شوق تھا انھوں نے موسیقی سیکھی تھی، پیانو اور طبلہ بجاتے تھے اور گاتے بھی اچھا تھے۔ ان کی پارٹیوں میں نہ صرف غزلوں کا دور چلتا تھا بلکہ انگریزی گانے بھی سننے کو ملتے تھے۔

دونوں میاں بیوی برج کھیلنے کے شوقین تھے۔ پانچ فٹ لمبی رعنا کو نہ تو زیور کا شوق تھا اور نہ ہی کپڑوں کا انھیں ایک پرفیوم پسند تھا 'جوائے'۔ جبکہ لیاقت علی کو امرود بہت پسند تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ اس سے خون صاف ہوتا ہے۔

جانے سے پہلے جہاں جناح نے اورنگزیب روڈ والا بنگلہ رام کرشن ڈالمیہ کو فروخت کیا تھا وہیں لیاقت علی نے اپنا بنگلہ پاکستان کو عطیہ کر دیا تھا۔

اسے آج بھی پاکستان ہاؤس کہا جاتا ہے اور وہاں آج بھی انڈیا میں تعینات پاکستان کے سفیر رہتے ہیں۔

دیپ اگروال بتاتی ہیں کہ لیاقت علی نے اپنے گھر کی ایک ایک چیز پاکستان کو دیدی تھی اور وہ صرف ذاتی استعمال کی کچھ چیزیں لے کر پاکستان گئے تھے۔

اس سامان میں ایک سوٹ کیس سیگریٹ لائٹروں سے بھرا تھا اور وجہ یہ تھی کہ انھیں سیگریٹ لائٹر جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔

اگست 1947 میں لیاقت علی، ان کی بیگم رعنا لیاقت علی اور دو بیٹوں اشرف اور اکبر نے دلی کے ویلنگٹن ہوائی اڈے سے کراچی کے لیے پرواز کیا۔

لیاقت علی کا قتل

لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم بنے اور رعنا پہلی حاتونِ اول۔ لیاقت نے انھیں اپنی کابینہ میں اقلیتوں اور خواتین کی بہبود سے متعلق وزارت دی۔

ابھی چار سال ہی گذرے تھے کہ راولپنڈی میں ایک جلسے میں خطاب کے دوران لیاقت علی کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے بعد بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ رعنا اب واپس انڈیا چلی جائیں گی لیکن انھوں نے پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

کتاب 'دی بیگم‘ کی مشترک مصنفہ تہمینہ عزیز ایوب بتاتی ہیں کہ ابتدا میں وہ بہت پریشان تھیں اور گھبرائیں بھی کہ اب میں کیا کروں گی کیونکہ لیاقت ان کے لیے کوئی پیسہ یا جائیداد چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔

ان کے اکاؤنٹ میں محض 300 روپے تھے اور ان کا بڑا مسئلہ بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم تھی۔ کچھ لوگوں نے ان کی مدد بھی کی۔

پاکستان کی سفیر بنا دی گئیں

حکومتِ پاکستان نے انھیں ماہانہ دو ہزار روپے کا وظیفہ دینا شروع کر دیا۔ تین سال بعد انھیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھیج دیا گیا جس سے انھیں کچھ آسرا ہوا۔

رعنا نے 1949 میں ہی آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھ دی تھی اور بیرون ملک ہوتے ہوئے بھی وہ اس تنظیم سے وابستہ رہیں۔ ہالینڈ کے بعد انھیں اٹلی میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا۔

تہمینہ ایوب بتاتی ہیں کہ وہ بہت تعلیم یافتہ تھیں اور مختلف موضوعات پر ان کی اچھی گرفت تھی۔ رعنا لیاقت علی نے سفارت کاری کے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیے۔ ہالینڈ نے انھیں اپنے سب سے بڑے اعزاز 'اورینج ایوارڈ' سے بھی نوازا۔

اس وقت ہالینڈ کی رانی سے ان کی اچھی دوستی ہوئی اور رانی نے انھیں ایک عالیشان گھر کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ تم انتہائی سستے دام میں اسے اپنی ایمبیسی کے لیے خرید لو۔

یہ گھر شہر کے درمیان میںاور شاہی محل سے صرف ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ وہ بلڈنگ آج بھی پاکستان کے پاس ہے جہاں ہالینڈ میں پاکستان کا سفارتی عملہ رہتا ہے۔

بیگم رعنا سوئزر لینڈ کی سفیر بھی بنیں اور انڈیا کے سابق خارجہ سیکریٹری جگت مہتہ کے فلیٹ میں ٹھہریں جو اس وقت سوئزر لینڈ میں انڈیا کے جونیئر سفیر ہوا کرتے تھے۔

بعد میں جگت مہتہ نے اپنی کتاب 'نیگو شی ایٹِنگ فار انڈیا، ریزالوِنگ پرابلمز تھرو ڈپلومیسی' میں لکھا کہ 'وہ ہمارے چھوٹے سے فلیٹ میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہیں حالانکہ وہاں برطانوی سفیر نے جو پاکستان کے سفیر کی ذمہ داری بھی سنبھالتے تھے انھیں اپنے گھر رہنے کی دعوت دی تھی۔

انھوں نے لکھا کہ 'آتے ہی وہ بغیر تکلف کے میرے باورچی خانے میں گئیں اور تو اور ایک مرتبہ انھوں نے میرے دو چھوٹے بچوں کو نہلایا بھی تھا۔ ڈپلومیسی کی تاریخ میں انڈیا اور پاکستان کے سفیروں کے درمیان اس طرح کی دوستی کی شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔

رعنا کا ایوب سے ٹکراؤ

ڈپلومیسی کے شعبے میں کافی کامیاب ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے صدر ایوب خان کے ساتھ ان کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوئے اور ایوب خان نے انھیں تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

تہمینہ عزیز لکھتی ہیں کہ ایوب خان چاہتے تھے کہ وہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں حصہ لیں لیکن رعنا نے صاف انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں۔

جنرل ضیا سے ٹکراؤ

بیگم رعنا لیاقت علی کو ان کی خدمات کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا گیا انھیں مادرِ پاکستان کا خطاب بھی مِلا۔

تہمینہ بتاتی ہیں کہ 'جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا تو انھوں نے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کی قیادت کی اور جنرل ضیا الحق کے اسلامی قوانین کی پرزور مخالفت کی۔‘

30 جون 1990 کو رعنا لیاقت علی نے آخری سانس لی۔

سنہ 1947 کے بعد پاکستان کو اپنا گھر بنانے والی رعنا لیاقت علی تین بار انڈیا آئیں لیکن ایک بار بھی الموڑہ واپس نہیں گئیں لیکن الموڑہ کو بھلا بھی نہیں پائیں۔ دیپا اگروال کہتی ہیں کہ وہ الموڑہ کے روایتی کھانے پسند کرتی تھیں اور ایک بار اپنے بھائی نارمن کو ان کی سالگرہ پر خط میں لکھا تھا ’آئی مِس الموڑہ'۔

Monday, October 14, 2019

ساٸبر کراٸم, احتیاط کجیۓ




تحرير:لعذر اللہ رکھا ایڈووکيٹ

آپکا ایک غلط کلک آپکو موت کے منہ میں لے جا سکتا ھے۔


آجکل سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رھا ھے، خاصکر نوجوان نسل کو سوشل میڈیا کی لت نشے کی حد تک لگ چکی ھے، شہروں سے لیکر دورہ افتادہ گاوُں تک فیس بک، واٹس اپ مسینجر کا دن رات بے دردی سے استعمال کیا جارھا ھے,اور یہ انسان کا بنیادی حق بھی ھے،جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا بری بات نہیں اس کا غلط استعمال بری بات ھے، آج کل زیادہ تر توھین مذھب کے کسیز کی بڑی وجہ فیس بک،واٹس اپ ،ای میل اور مسینجر کا غلط اور احمکانہ استعمال ھے اور یہ کیسز توھین آمیز پوسٹس کی وجہ سے رجسڑڈ ھورھے ھیں، سمارٹ فونز پر لاپرواھی اور غفلت کی بنا پر حالیہ دور میں متعدد ایف آٸی آر ھوٸی ھیں، آپ کے سمارٹ فون سےلاعلمی یا بےاحتیاطی سے اگر کوٸی توھین آمیز مواد لاٸک یا شیٸر ھوا تو آپ اپنے ساتھ اپنے خاندان اور پوری برادری کو جان لیوا مصیبت میں ڈال لیں گے ،ھر شخص کو پتہ ھونا چاھیے کہ تمام مقدس ھستیوں کی شان میں توھین آمیز کنٹینٹ لاٸک کرنا، پوسٹ کرنا شٸیر کرنا سنگین جرم ھے، اور پریوینشن آف الیکٹرونک کراٸم ایکٹ2016 کے تحت اس کی سزا،سزاۓ موت تک ھوسکتی ھے.

 ایف آٸی اے اس کا تفتیشی ادارہ ھے، اور اگر کسی بھی طریقے سے آپ کا سمارٹ فون اس جرم کا ارتکاب میں پایا گیا تو سمجھیں جیل کی کال کوٹھری آپ کی منتظر ھے اور لمبے عرصہ تک آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ھیں،

اس ضمن میں چند احتیاطی تدابیر:-

فیس بک واٹس اپ میسنجر پر کسی مذھبی گروپ میں ایڈ نہ ھوں، اگر ھیں تو فوری نکل جاٸیں۔کسی بھی قسم کے فیس بک یا واٹس اپ پر مذھبی گروپ کے ایڈمن نہ بنیں،کسی بھی مذھبی بحث میں حصہ نہ لیں نہ لاٸک کریں اور نہ شٸیر کریں۔کسی بھی توھین آمیز مواد کو فوری اپنے اکاونٹ ڈی پی اور گیلری سے ڈیلیٹ کردیں، اور سینڈر کو مستقل بلاک کر دیں، اپنا فیس بک اور واٹس اپ اکاونٹ اپنی گیلری بھی توھین مواد سے صاف رکھیں۔کسی فرقہ وارانہ تقریر لیکچر اور وڈیو کو پسند نہ کریں۔اپ لوڈ اور نہ ھی ڈاون لوڈ کریں۔کوٸی ھتک آمیز کومنٹ نہ کریں اور نہ کسی کے بھی مذھبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔اپنی فرینڈ لسٹ مختصر اور سلجھے لوگوں تک محدود رکھیں، غیر ضروری فرینڈز کو ڈیلیٹ کرنا شروع کریں۔

مذھبی سکالر بننے کی کوشش نہ کریں، اور نہ ھی مذھبی اشتعال دلانے والی پوسٹ کریں جنونی اور انتہا پسند لوگوں کو فالو نہ کریں چاھیۓ مسیحی عالم ھی کیوں نہ ھوں، تمام مذاھب کی مقدس ھستیوں کا احترام آپ کی قانونی، اخلاقی اور مذھبی ذمہ داری ھے. ذرا سے لاپرواھی اور بے احتیاطی سے آپکا سمارٹ فون آپ کے لٸے پھانسی کا پھندہ بن سکتا ھے۔پلیز شٸیر کجیۓ۔


Sunday, October 13, 2019

عورت، صنفی تعصب اور ہمارے سماجی رویے



تحرير: دلاورحسين

مذہب، ثقافت، لسانیت اور جغرافیہ کی بنیاد پر جنم لینے والے تعصبات کے ساتھ صنف کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے تعصبات بھی ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔ تاہم صنفی تعصبات کی شدت اور حجم کا ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہے۔ اسی طرح صنفی تعصب کے پیچھے کارفرما عوامل اور ان تعصبات کے تدارک کےلیے قوانین اور اقدامات میں بھی فرق ہے۔ تاہم ہر معاشرے میں صنفی تعصب کی مشترک اور مستقل قدر اس تعصب کا شکار ’صنفِ نازک‘ کا ہونا ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو ہمیں صنفی تعصب کی بنیاد پر عورت کو روایتی طور پر مرد کی نسبت زیادہ جذباتی، کم عقل، کمزور، تابع اور مرد پر انحصار کرنے والی صنف تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کو مرد کے ماتحت اور ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو ’معصوم‘ مرد کو بہکانے اور گمراہ کرنے والی مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ان دلائل کو ثابت کرنے کےلیے مذہبی اور ثقافتی روایات کو بطورِ استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عیسائی مذہبی روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو ممنوع پھل کھانے پر حضرت حوا علیہ السلام نے بہکایا، جس کا خمیازہ حضرت آدم کو زمین پر بھیجنے اور دنیا کی صعوبتیں برداشت کرنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اسلام میں عورت کو دوسرے درجہ کی مخلوق ثابت کرنے کےلیے عورت کو مرد کے پیچھے نماز پڑھنے کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ رجعت پسند یہودیت کے ہاں عورت کو مذہبی رسومات میں بطورِ ناظر اور مشاہدہ کےلیے شرکت کی اجازت ہے اور نہ برابر شراکت اور شمولیت کی۔

مذہب کے علاوہ اگر ہم اپنے آرٹ، ادب، سیاست، معیشت اور دیگر معاشرتی اداروں پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح صنفی تعصب اور عورت کا دوسرا درجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی بھی ثقافت میں پائے جانے والے عوامل کی بات کریں تو رسم و روایات اور عقائد کی نسبت اس کی زبان کا غلبہ واضح اور اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم اردو اور دیگر مقامی زبانوں کے ادب کا غیر جانبدانہ مشاہدہ کریں تو ہمیں واضح طور پر مرد کی نسبت عورت کا ذکر بہت کم اور دوسرے درجہ کی مخلوق کے طور پر ملتا ہے۔ عورت کے معاشرتی اور سیاسی مثبت کردار اور قربانیوں کا بہت کم تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مرد کی بہادری کے قصے، اس کی تاریخ، اور اس کا سیاست و معاشرے میں کردار تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا جبکہ عورت کے معاشرتی اور سیاسی کردار کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند باظرف شعرا اور نثرنگاروں کے علاوہ عورت کی خوبصورتی، حسن اور نازکی کا بیان بیہودہ، رذیل، عامیانہ، ناشائشتہ اور اوچھے انداز اور جسمانی تفصیل میں ملتا ہے۔ نثر میں بھی مرد کو طاقت کا مرکز جبکہ عورت کو سست، غیر مزاحمتی، غیر متحرک، غیر فعال صنف کے استعارہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عورت کی جسمانی نمائش صرف ادب میں نہیں بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں چلنے والے اشتہارات سے بھی ہوتی ہے، جس میں عورت کی صنفی نمائش کرکے متعلقہ صنعت اور مصنوعات کی طرف صارفین کی توجہ حاصل کرنے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

روزمرہ زندگی کا مشاہدہ کیجئے۔ قصور بھائی، باپ، بیٹے یا شوہر کا ہوگا بدزبانی اور گالم گلوچ قصوروار کی بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کو دے کر حساب برابر کیا جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا، قتل وغارت مرد کرے لیکن بطور ہرجانہ اور قصاص عورت کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ دیکھ لیجئے۔ بیٹے اور بھائی کی نسبت بیٹی اور بہن کو تعلیم کے بنیادی حق سے محض یہ کہہ کر محروم کردیا جاتا ہے کہ ’ہم نے کون سا استانی لگوانی ہے‘۔ معیشت میں دیکھیں تو عورتوں کی ملازمت میں تنخواہ کم اور پیشہ ورانہ درجہ عموماً مردوں کی نسبت نچلا ہوتا ہے۔ ایسے پیشے جن سے عورتیں منسلک ہیں مثلاً نجی اسکول ٹیچرز، بچوں کی نگہداشت اور گھریلو ملازمہ کا معاوضہ انتہائی کم ہے۔ مزید برآں ذہنی پریشانی، ذلت اور جسمانی ہراسیت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح کاروبار، شعبہ تعلیم، آرمی، سرکاری و غیر سرکاری اور دیگر معاشی و سیاسی اداروں کی سرپرستی اور قیادت میں عورتوں کا تناسب بہت کم ہے۔

محولہ بالا بیان کردہ استحصال کے علاوہ عورت کی سب سے خطرناک تصویر اسے مرد کی پرتشدد فطرت کے مقابلے بے بس، بے اختیار، ناتواں، لاچار، کمزور، عاجز، مجبور، کند ذہن اور ناسمجھ مخلوق کے طور پر پیش کیا جانا ہے۔ عورت کی بیان کردہ اس تصویر کی وجہ سے اسے احساس کمتری، ذہنی اذیت کے ساتھ مرد کے ہاتھوں جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد جیسے منفی رویوں کا سامنا رہتا ہے۔

عورت کو مرد کے تجویز کندہ اور حاکمانہ رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوامی مقامات اور بازار جانے کےلیے ان کے ساتھ ’قابل اعتماد‘ مرد کا ہونا لازم قرار ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ یا تو وہ خود مرد کی ہوس بھری نظروں کا سامنا نہیں کرسکتی یا پھر اسے گھر سے ’اجازت‘ نہیں ملتی۔ یوں ان کا اکیلے آنا مبینہ پردے کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ ہم بجائے اس کے کہ اپنی بیمار ذہینت کا ماتم کریں الٹا عورت کو ’بے حیائی‘ کی علامت قرار دیتے ہیں۔ 

مرد تو پسند کی شادی کرسکتے ہیں جبکہ ہماری بہن یا بیٹی اپنا یہ اسلامی اور آئینی حق استعمال کرنا چاہے تو ہماری ’غیرت‘ آڑے آجاتی ہے۔ حالانکہ بیٹی کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا عین سنتِ نبویؐ ہے۔ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کا حضرت علیؓ سے نکاح کرنے سے پہلے رائے اور رضامندی پوچھ کر نکاح کیا۔ جب ہم اپنی انا اور نام نہاد عزت کی خاطر اپنی بیٹی اور بہن کی مرضی کے خلاف اقدام اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں گھریلو ناچاقی اور طلاق جیسے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر چار و ناچار ہماری بہن، بیٹی ہماری انا کے سامنے جھکنے سے انکار کردے تو ہم اسے ’غیرت‘ کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔

چھوٹی عمر میں شادی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ باپ بعض اوقات محض اپنے معاشی مفادات کی خاطر معصوم بیٹیوں کی ان سے کئی گنا بڑی عمر کے مردوں سے شادی کردیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ زچہ وبچہ دونوں پر پوری زندگی مضر صحت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم عورت کو ’سبق‘ سکھانے کےلیے طلاق دے دیتے ہیں۔ جس سے عمر بھر کےلیے وہ ذہنی، معاشی اور معاشرتی تذلیل کا شکار رہتی ہے۔ اگر کوئی عورت ہماری ہوس کا شکار بننے سے انکار کردے تو ہم اس پر تیزاب پھینک کر اس کو ساری زندگی کےلیے اس لہے اپاہج بنادیتے کہ ’میرے نہیں تو کسی اور جوگی بھی نہیں رہے گی‘۔

عورت کو اول تو سوشل میڈیا تک رسائی بہت کم ہے، لیکن جن کو ہے اگر وہ ہماری رائے کے مخالف رائے رکھنے کا ’ناقابل معافی‘ جرم کرلیں تو ہم ان کی کردارکشی اور عزت پر کیچڑ اچھالنا اپنا ’فرض‘ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ان رویوں کی وجہ سے عورت کا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کردار سکڑ کر رہ گیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صنفی تعصب اور معاشرتی ناانصافی کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ان وجوہات میں ہماری بیمار ذہنیت، مرد ’اسٹیٹس کو‘ کے خاتمے کی خوفزدگی، بنیادی آئینی و اسلامی اصولوں سے لاعلمی، تعلیم کا فقدان، ہٹ دھرمی، اور سب سے بڑھ کا عورتوں کا ان کے آئینی حقوق سے لاعلمی ہے۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ ہے جو عورت کو صرف اور صرف گھر کی زینت بنائے رکھنے کا قائل ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس تمام بنیادی معاشرتی حدود وقیود کو روند کر عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ تاہم ان دونوں گروہوں کے دلائل اپنی جگہ، ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا ہے۔

اگرچہ عورت اور مرد کے درمیان جسمانی (بائیولوجیکل) مساوات اور مماثلت نہیں ہے، تاہم اس درجہ بندی اور فرق کی اہمیت اپنی جگہ قائم رکھتے ہوئے اس فرق کو دوسرے درجہ کا سمجھا جائے۔ یہاں پر برابری کا مطلب اس کی جسمانی برابری نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کی برابری ہے۔ عورت کی جسمانی ساخت، مذہب، سماجی روایات، سیاسی نظام، معیشت اور قانون کو عورت کے استحصال کے بجائے اس کی آزادی اور حقوق کی برابری کےلیے استعمال کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کےلیے حکومتی سطح پر متعلقہ قوانین پر عملدرآمد جبکہ عوامی سطح پر اپنے سماجی رویوں کو فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید برآں عورتوں کو اپنے آئینی حقوق سے متعلق جانکاری لازمی ہونی چاہے۔ ان حقوق کی آگاہی کےلیے ایک طرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کردار ادا کرنا ہوگا، جبکہ دوسری طرف تعلیمی اداروں میں اس آگاہی کےلیے ایسے کورسز کی تشکیل کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔

Wednesday, October 9, 2019

قائد کے بعد کا پاکستان



قائداعظم محمد علی جناح کے 71 ویں یوم وفات پر تقریباً سب نے ہی یہ عہد کیا کہ وہ ان کے بتائے ہوئے مشن پر چلیں گے مگر چل کر کسی نے نہیں دیا۔ اب تو خیر اتنی بھی فرصت نہیں کہ کم از کم 25؍دسمبر، 11؍ستمبر اور 14؍اگست پر صدر و وزیراعظم آکر فاتحہ ہی کر لیا کریں۔ لگتا ہے قائد کو بھی 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی مسئلہ بنا دیا ہے۔

یہ حال سارے حکمرانوں کا ہے کیونکہ زیر زبر کے بغیر صرف نام تبدیل ہوتے ہیں، بیانات ایک ہی جیسے دیئے جاتے ہیں۔ آئیں ذرا دیکھیں یہ پاکستان قائد کے تصور پاکستان سے کتنا مختلف ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح نہ صرف یہ کہ ایک روشن خیال سیاستدان تھے جو جمہوری اقدار، آئین اور قانون کی بلا دستی پر یقین رکھتے تھے بلکہ وہ آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے زبر دست حامی تھے۔ 

ان تین اداروں پر قائد کی وفات کے بعد سب سے پہلا حملہ ہوا، بدقسمتی سے جس تیزی کے ساتھ ان کے سیاسی افکار کے خلاف عمل شروع ہوا اس سےیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود پاکستان مسلم لیگ کا شیرازہ اتنی جلدی کیوں بکھر گیا۔

ابھی تو انتقال کو ایک سال نہیں گزرا تھا کہ ان کی 11؍اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کی تقریر کو متنازع بنا دیا گیا۔ اس تقریر کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ بانی پاکستان کا پالیسی بیان تھا جو آئین کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔

سازشیں آہستہ آہستہ بے نقاب ہونا شروع ہو گئیں اور ابتدأ سے یہ نظر آنے لگا کہ لیگ کی مغربی پاکستان کی قیادت اکثریتی مشرقی پاکستان کو اقتدار دینے کو تیار نہیں۔ 

اس میں انڈین سول سروس سے آئے ہوئے لوگ بھی شریک تھے اور یہاں کے سیاستدان بھی۔ لہٰذا پہلے دس برس میں سیاسی طور پر بائیں بازو کی جماعتوں اور سیاست پر حملہ ہو گیا۔ جس کی ابتدا کمیونسٹ پارٹی پر پابندی سے ہوئی۔

دوسرا اظہار رائے کی آزادی پر اور تیسرا جسٹس منیر کی شکل میں جمہوریت آئین اور قانون پر ہوا۔ ایسی ہی ایک سازش کے نتیجے میں قائد کے دست راست اور پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو لیاقت باغ (نام بعد میں رکھا گیا) راولپنڈی میں جلسے کے دوران شہید کردیا گیا۔

یہ سازش آج تک بے نقاب نہیں ہو سکی کیونکہ بات اندر تک پہنچ گئی تھی لہٰذا کیس دبا دیا گیا۔ بعد میں جس طرح خواجہ ناظم الدین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ، نوکر شاہی اور عدلیہ بھی شریک جرم رہیں اور پھر وہی ہوا جس کا شاید تصور بھی قائد کے پاکستان میں نہیں تھا، یعنی مارشل لاء۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ بانیانِ پاکستان یا مسلم لیگ کی قیادت اس طرح بکھر جائے گی۔ 

ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے ہی دو اہم کام ہوئے۔ پہلا ون یونٹ کا قیام جس کا مقصد وہی تھا اکثریت کو شراکت اقتدار سے دور رکھنا اور دوسرا بائیں بازو کی سیاست کو امریکہ کے ساتھ وفاداری کو ثابت کرنے کے لئے کچلنا۔ راولپنڈی سازش کیس ہو یا کیمونسٹ پارٹی پر پابندی، (رہنمائوں کی گرفتاری سب اسی سلسلے کی کڑی تھیں) یا 1935میں طلبہ پر گولی چلانا یا حسن ناصر کی شاہی قلعہ میں ہلاکت جیسے واقعات نے بڑے سوالات کھڑے کیے۔ لہٰذا قائداعظم کے تصور سیاست کا خاتمہ تو پہلے دس سال میں ہی کر دیا گیا۔

اب چاہے الزام سیاست دانوں پر ڈالیں یا بیورو کریسی پر یا عدلیہ کے کردار پر۔ مولوی تمیز الدین کے مقدمے میں نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر جناح کے قانون کی حکمرانی کے خواب کو بھی چکنا چور کر دیا گیا۔

ہمارے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ہر دوسرا سیاستدان آمریت کی پیداوار ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے۔ اگر حکمرانی آمریت کی شروع سے ہو گی تو پیداوار جمہوریت کی کیسے ہو سکتی ہے۔

کبھی بنیادی جمہوریت کے نام پر تو کبھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے نام یہ ہی تماشا لگا رہا اور عدلیہ ہر آنے والے آمر کو نظریہ ضروررت کی سند دیتی رہی۔ جناح خود ایک نامور قانون دان تھے اور وہ آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے مگر نہ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا اور نہ ہی اس وقت کے سیاست دانوں نے۔

مولوی تمیز الدین کے کیس سے لےکر نصرت بھٹو اور ظفر علی شاہ کے مقدمات تک یہ نظریہ ضرورت، آمروں کے نجات کا راستہ بنا جس کے نتیجے میں آمرانہ طرز حکمرانی قائم رہا۔

قائداعظم ایک انتہائی صاف گو، شفاف سیاستدان تھے مگر ہم نے سیاست کو ہی گالی بنا دیا۔ اب تو کرپشن آپ کو سیاست کی میراث تک لے جاتی۔ معاشرہ میں جو جتنا کرپٹ ہوگا اس کی اتنی ہی عزت ہوگی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اب اجتماعی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ آج کوئی حسن ناصر، نظیر عباسی نہیں ہے کوئی فیض احمد فیض۔ حبیب جالب یا احمد فراز پیدا نہیں ہو رہا۔

رہی بات نظریاتی بحث کی تو آپ جس نظریہ کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے تو آپ کا یہ جمہوری حق ہے کہ آپ اس رائے کیلئے جدوجہد جاری رکھیں مگر کچھ چیزوں پر تو اتفاق رائے ہو ہی سکتا ہے مثلاً جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور اظہار رائے کی آزادی۔ اب پچھلے 72برسوں میں کس کا کیا کردار رہا اور وہ کس حد تک ان اقدار کے ساتھ رہا۔

سفر لمبا ہے کم سے کم ابتدا اس سے کر لیجیے کہ قائد کے شہر کو کوئی کم سے کم کچراچی نہ کہے کراچی کہے۔ کم سے کم 25؍دسمبر ، 14؍اگست اور 11ستمبر کو ہمارے صدر و وزیراعظم تو مزار پر حاضری یقینی بنا ہی سکتے ہیں۔

باقی تو اب صرف نوٹ والا قائد باقی ہے اور وہ اگر گندا ہو جائے تو دکان دار بھی نہیں لیتا اور خریدار بھی نہیں۔ رہی بات سازشی تھیوری اور افواہوں کی تو بد قسمتی سے یہ اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ 


Copied#

Saturday, October 5, 2019

ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا




انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی 150 سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ یاروں نے سوال کیا ہے کہ پاکستان میں لوگ گاندھی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پہلے تو خیال آیا کہ کہہ دیں کہ ہمارے گھر میں اپنے ہی اتنے سارے پنگے ہیں کہ ہمیں گاندھی کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں ملا۔

پھر مجھے یاد آیا کہ ہمیں سکول میں گاندھی کے بارے میں بس اتنا پڑھایا گیا تھا کہ وہ ہندو تھے، باقی بات آپ خود سمجھ لیں۔

اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ گاندھی مکار تھا، گاندھی بنیا تھا، پاکستان بننے کے بالکل خلاف تھا، بھارت ماتا کی پوجا کرتا تھا، ہم مسلمانوں نے صدیوں تک جو ہندوؤں پر حکومت کی وہ ان کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔

گاندھی کے مقابلے میں ہمارا بابا قائد اعظم تھا۔ وہ لندن سے پڑھا لکھا وکیل، اس نے گاندھی کا گریبان پکڑ کر ایسا دھوبی پٹکا مارا کہ پاکستان لے لیا۔

تھوڑا بڑا ہوا تو فلم 'گاندھی' دیکھ کر پتہ چلا کہ ہندوؤں کا بابا کوئی ملنگ سا آدمی تھا جو ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑنے سے پہلے جنوبی افریقہ میں بھی گوروں سے دو دو ہاتھ کر چکا تھا۔

فلم پر پاکستانیوں کو اعتراض تھا کہ گورے ہدایتکار نے ہندوؤں کے بابے کو ہیرو بنا دیا اور ہمارے بابے کو کوئی خبطی ولن دکھایا ہے۔

ہم گاندھی اور جناح کی پرانی تصاویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان تصاویر میں ہمارے بابے نے استرے کی دھار سے تیز لندن سے سلوایا سوٹ پہنا ہوتا ہے اور ہاتھ میں ولایتی سگریٹ پکڑا ہوتا ہے۔ ایک سیانے نے کہا کہ جب پاکستان میں پچاس ہزار کا نوٹ بنایا جائے گا اس وقت اس تصویر کو اس نوٹ پر لگایا جائے گا۔

ان تصویروں میں مہاتما گاندھی نے اپنی آدھی دھوتی اٹھائی ہوتی ہے اور ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑی ہوتی ہے۔ کچھ تصاویر میں دونوں بابے ہنس بھی رہے ہیں۔ اگر ان دونوں کو معلوم ہوتا کہ مستقبل میں ان کے ہندوستان۔پاکستان کا کیا ہونے والا ہے تو شاید وہ گلے مل کر رو بھی پڑتے۔

دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔۔۔

ایک تصویر میں مہاتما گاندھی ہاتھ اٹھا کر بحث کر رہے ہیں گویا یہ کہہ رہے ہوں کہ 'ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔' ہمارے بابے قائد اعظم نے ولایتی سگریٹ کے کش لگا کر ایسا منھ بنایا جیسے کہہ رہے ہوں، 'یار گاندھی، تم جلدی کرو، اب ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، بٹوارہ تو ہو کر ہی رہے گا۔'

ہمارے بابے قائداعظم نے اتنی انگریزی بولی کہ گوروں نے بھی مان لیا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قوم ہیں، راتوں رات دو ملک کاٹو اور یہاں سے بھاگو۔ باقی کاٹنے اور پھاڑنے کا انتظام ہم نے خود کر لیا۔ ہمارا بابا جیت گیا، گاندھی ہار گیا۔

ہندوستان اور پاکستان کے بننے کے اگلے ہی سال دونوں بابے چل بسے۔ ایک کو تپ دق کھا گئی اور ایک کو اسی کے ہندو بھائی نے گولی مار دی۔

ہمیں بچپن میں گاندھی سے نفرت کرنا سکھایا گیا تھا۔ ایک بزرگ اردو مصنف نے ایک بار لکھا تھا: 'سوچو، اگر پاکستان نہ بنتا تو گاندھی جیسا کوئی ہندو آپ کے دروازے پر دھوتی اٹھا کر مُوت رہا ہوتا۔'

اچھا ہوا، ہم نے زیادہ تر ہندو یہاں سے بھگا دیے۔ اب ایک دوسرے کے دروازے پر موتنے کا کام ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔

’اب تم صرف نوٹوں پر نظر آؤگے‘

اس طرف جس گاندھی کو ہم بڑا ہندو سمجھتے تھے اسے نئے ہندوؤں نے کہا: 'چلو تم اتنے بھولے ہندو ہو کہ نئے ہندوستان میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب تم صرف نوٹوں پر نظر آؤگے۔'

ہندوستان میں ابھی ان لوگوں کا راج ہے جو گاندھی کے قاتل کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ پہلے پاکستان میں گاندھی کا نام گالی ہوتا تھا اب ہندوستان میں بھی کلنک بن گیا ہے۔

وہاں پر موجود ہمارے بھائی سوچتے ہوں گے کہ جنھوں نے اپنے بابے کو نہیں چھوڑا وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔ یہاں ہم کہتے تو نہیں لیکن کبھی کبھی سوچتے ضرور ہیں کہ ان نئے والوں سے تو گاندھی ہی اچھا تھا۔

تحرير: محمد حنيف