Monday, September 30, 2019

میں کس گلی میں کھیلوں؟





تہذیب اپنے زوال کی اتھاہ گہرائی تک پہنچ چکی۔ وہ معصوم کلیاں اور پھول جو گلشن ہستی کا ساماں تھے، آج ہوس پرست درندوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ وہ نازک کونپلیں جو ابھی تنے سے نکلی ہی ہوتی ہیں، کاٹ لی جاتی ہیں۔ لاشے بکھرے پڑے ہیں جس گلی میں جاؤ، جس محلے میں جاؤ، جس شہر کا رخ کرو، ہر طرف یہی وحشت نظر آتی ہے۔ انسان انسان کو ڈھونڈ رہا ہے کہ وہ کہاں گیا۔ کبھی بچپن بھی ہوا کرتا تھا اور لڑکپن بھی، یہ دونوں ادوار حیات نہایت پاکیزہ گردانے جاتے تھے، مگر آج بچپن کا دوسرا نام خوف ہے۔ مائیں جلد سے جلد اپنے نازک پھولوں کو تناور درخت دیکھنا چاہتی ہیں کہ کہیں یہ ان بھیڑیوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں جو ہر گلی کے موڑ پر اپنی خونیں نظریں گاڑے پاگل ہوئے جاتے ہیں۔

ہ جوظالم ہیں یہ بھی تو کسی نے جنم دیئے ہیں اور جنم دے کر شائد کوڑے دان میں پھینک دیئے۔ بھوک اور ہوس کے کوڑے دان میں۔ یہ اپنے ہی گھروں میں شائد ایسا تماشا دیکھتے رہے ہیں۔ شائد ان کے سامنے ان کی مان بہن کی عزت بے معنی رہی ہے۔ شائد ان کے ہاں عزت کا تصور ہی نہ رہا ہو، تبھی تو وہ عمر کی تفریق بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے تقسیم ہوئے ہیں کہ بس گناہ ہی جمع کیے جارہے ہیں۔ اور آخر لاکھ چھپنے کے بعد تختہ دار پر مصلوب ہوہی جاتے ہیں۔ یہ درندے ہمارے اس شکستہ معاشرے کے جنگل کے بادشاہ ہیں۔ یہ ہمیں ہمارا ہی آئینہ دکھاتے ہیں۔ ہم انہیں کوستے ہیں، انہیں گالیاں دیتے ہیں، انہیں معاشرے کا ناسور سمجھتے ہیں، مگر یہ ہماری ہی پیداوار ہیں۔ ہم نے ہی انہیں پالا ہے۔ ہم نے ہی انہیں اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے کہ اب یہ سانپ اپنے ہی بچوں کو کھائے جارہے ہیں۔

انہیں کس نے پناہ دی؟ ضرور کسی صاحب ثروت اور صاحب جاہ و حشمت نے اپنی پیٹھ پیچھے انہیں چھپایا۔ انہیں شہ ملی اور یہ اور آگے بڑھے۔ اس ناہنجار مقتدر کو انہوں نے اپنا آلہ کار بنایا، اسے کچھ پرچیاں دیں یا اس کےلیے کوئی دوسرا جرم کیا، اس کا جرم اپنے سر لیا اور اس نے انہیں سر پر بٹھا لیا کہ یہ پاگل کتے ماؤں کے آنگن اجاڑتے پھریں۔ کہیں کوتوال نے اپنے بھتے کےلیے انہیں نظر انداز کردیا اور کہیں عزت کے مارے والدین خاموشی اختیار کرگئے۔

اب معصوم بچے گھر سے نکلتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ انہیں اب یہ اود بلائیں نظر آنے لگی ہیں۔ انہیں ماں باپ نے ان سے خوفزدہ کردیا ہے۔ ان کے کھیل کود کے دن اب خوف کے سائے میں بند کمروں میں کٹتے ہیں۔ اب وہ باہر نکلنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ امی کس گلی میں جا کر کھیلنا ہے؟ وہ محلہ جو ان کا بہت بڑا کھیل کا میدان تھا، وہ گاؤں جو ان کی جاگیر تھا، جہاں چاہتے تھے وہیں جاتے تھے، سب ان کے ماں باپ تھے، بہن بھائی تھے۔ اب وہ سارے انہیں اپنے دشمن اور شیطان نظر آتے ہیں۔ تبھی تو گھر سے نکلتے وقت اپنے والدین کو دو تین مرتبہ گلے لگاتے ہیں کہ پتہ نہیں کس گلی کے کس نکڑ پر بھیڑیا کھڑا ہو اور بعد میں گلے ملنے کا موقع ہی نہ ملے۔


تحرير:

اکرم ثاقب



Saturday, September 28, 2019

عمران خان کی امریکہ میں متنازع شخصیت سے ملاقات اور سوشل میڈیا پر تنقید۔




نیویارک میں کشمیریوں کے ایک وفد سے ملاقات کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور نیویارک میں ان کی ٹیم سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہیں۔


اس کشمیری وفد میں شامل امریکا میں سزایافتہ شخص کی شمولیت اس تنقید کی وجہ بنی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے گئے ہوئے عمران خان جہاں اجلاس میں زیادہ سے زیادہ حمایت سمیٹنے کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں وہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے وفود سے بھی مل رہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان کی ان ملاقاتوں کا مقصد مختلف علاقائی اور عالمی امور پر پاکستانی موقف کے لیے تائید و حمایت حاصل کرنا ہے۔

اس وقت ان کے ایجنڈے پر کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے جو انڈیا کی جانب سے اس کے زیرانتظام ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پھر سے بین الاقوامی منظر نامے پر آگیا ہے۔

عمران خان نے 23 ستمبر کی ملاقات میں کشمیری وفد کو یقین دلایا کہ 'میں آپ کا پوری دنیا میں سفیر بنوں گا۔'

بظاہر تو یہ ایک بے ضرر سا سفارتی بیان ہے۔ تاہم وفد میں ستّر برس کے ڈاکٹر غلام نبی فائی کی شمولیت نے اسے متنازع بنا دیا ہے۔

آئی ایس آئی کنیکشن

کشمیری نژاد امریکی شہری ڈاکٹر غلام نبی فائی پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے غیر قانونی طور پر رقوم وصول کرنے کے جرم میں سزا یافتہ ہیں۔

سنہ 2012 میں ایک امریکی عدالت کے سامنے اقبال جرم کرنے کے بعد انھیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو کسی سے ملاقات سے پہلے ان کے پس منظر کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی چائیے تھی کیونکہ ایک حساس معاملے میں کسی سزایافتہ شخص سے ملاقات کا تاثر بین الاقومی سطح پر مثبت نھیں ہو سکتا۔

ریاست جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر فائی کو جس وقت جولائی 2011 میں گرفتار کیا گیا تو وہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم کشمیری امریکن کونسل نامی ادارے کے سربراہ تھے۔

جرم کیا تھا؟

ان پر الزام تھا کہ انھوں نے آئی ایس آئی سے تقریباً 40 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے اور اس سلسلے میں امریکی حکام سے غلط بیانی کی تھی۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی ڈاکٹر فائی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے بارے میں امریکی پالیسی پر اثرانداز ہونا چاہتی تھی اور یہ رقم اسی مقصد کے لیے ادا کی گئی تھی۔

کشمیری امریکن کونسل ایک غیر نفع بخش ادارے کے طور پر کام کرتی تھی اور اس کے اخراجات امریکی شہریوں کے فنڈ سے پورے کیے جاتے تھے۔

امریکی حکام کے مطابق اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر فائی نے آئی ایس آئی سے مختلف اوقات میں رقوم وصول کی تھیں تاہم انھوں نے امریکی قانون، فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ، کے مطابق ایک غیر ملکی حکومت کے ایجنٹ کے طور پر اپنا انداراج نھیں کرایا تھا۔

امریکی قانون کیا کہتا ہے؟

امریکہ میں غیر ملکی افراد اور حکومتیں امریکی انتخابی مہم کے لیے چندہ نھیں دے سکتے اور جو بھی کسی غیر ملکی حکومت کے لیے کام کرتا ہے اس کے لیے امریکی محکمۂ انصاف میں اپنا اندراج کروانا ضروری ہوتا ہے۔

امریکی حکام کے مطابق ڈاکٹر فائی نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے اعلٰی امریکی حکام سے ملاقاتیں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا تھا تاکہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں ان کی رائے پر اثرانداز ہوا جا سکے۔

مارچ 2012 میں سزا سنائے جانے کے بعد امریکی ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کہا تھا کہ اُنھوں نے کشمیر کی آزادی کی خاطر قربانی دی ہے۔

پاکستانی حکام نے اس وقت ڈاکٹر غلام نبی فائی کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

’اگر جنگ ہو گی تو ایٹمی ہو گی یہ دھمکی نہیں وارننگ ہے‘





پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ایک اعشاریہ دو ارب کی آبادی والی مارکیٹ کو خوش کرنے کی بجائے انڈیا کو کشمیر کی پالیسی بدلنے پر مجبور کرے۔


عمران خان نے تقریباً ایک گھنٹے کی اپنی تقریر میں کہا کہ کشمیر کی صورتحال دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ شروع کروا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ’یہ دھمکی نہیں بلکہ وارننگ ہے۔`

عمران خان سے کچھ ہی دیر پہلے ہی انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ انڈیا نے دنیا کو 'یُدھ'(جنگ) نہیں بلکہ بدھ دیا ہے۔

عمران خان نے اپنی سترہ منٹ کی تقریر میں کہا کہ وہ اس دیس کے رہنے والے ہیں جس نے پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے مزید کہا ’کشمیر'(انڈیا کے زیر انتظام کشمیر) میں اسی لاکھ افراد کرفیو میں ہیں اور جب یہ کرفیو اٹھے گا تو وہاں خون کی ندیاں بہیں گی۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا کسی نے سوچا ہے جب خون کی ندیاں بہتی ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ 13 ہزار نوجوانوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا ہے اور کسی نے کبھی ان نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے سوچا ہے کہ وہ اس وقت کس کیفیت سے گزر رہے ہوں گے جب انھیں مختلف طرح کی خبریں مل رہی ہوں گی۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ ان میں سے کچھ انتہا پسندی کی طرف جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ایک اور ’پلوامہ‘ ہو گا، اس کا الزام پاکستان پر لگے گا، ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال ہو گی جسے سن کر دنیا چپ ہو جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی اپنی رپورٹوں کے مطابق کے کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں ریپ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ کیا کسی نے سوچا ہے کہ انڈیا کے 18 کروڑ مسلمان اس وقت کیا سوچ رہے ہیں، دنیا بھر کے مسلمان کیا سوچ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا وہ کسی ’کم تر‘ خدا کے بچے ہیں، لوگوں کا دل دکھے گا اور پھر کوئی بندوق اٹھا لے گا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا اور اب ان وعدوں کو پورا کرنے کا وقت ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ پہلا اور فوری ایکشن تو یہی ہونا چاہیے کہ انڈیا کشمیر میں کرفیو ختم کرے۔

عمران خان نے تقریر میں مختلف موضوعات پر بات کرنے کے بعد آخر میں کشمیر کا ذکر کیا اور سب سے زیادہ وقت اسی پر بات کی۔

نریندر مودی اور آر ایس ایس کا نظریہ
پاکستانی وزیرِ اعظم نے کہا کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کرفیو میں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ ’اگر مغرب میں 80 لاکھ جانور قید کر دیے جائیں تو جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں متحرک ہو جائیں گی۔‘

انھوں نے سوال اٹھایا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے، اس کے لیے آر ایس ایس کا نظریہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا نریندر مودی اس تنظیم کے تاحیات رکن ہیں اور یہ تنظیم نسلی بالادستی پر یقین رکھتی ہے اور انڈیا میں نسل کشی کرنا چاہتی ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہے۔

’آر ایس ایس کا نظریہ نفرت کا نظریہ ہے اور اسی کی وجہ سے گاندھی کا قتل ہوا تھا۔ اسی نظریے کی وجہ سے انڈیا کی ریاست گجرات میں دو ہزار لوگوں کا قتل عام ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ جب کوئی بالادستی کے کی سوچ اپناتا ہے تو غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے اور اسی چیز نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے کشمیر والا فیصلہ کروایا۔

’پاکستان کا ایجنڈا امن ہے‘

پاکستان کے وزیر اعظم عمران نے کشمیر پر بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اقتدار میں آئے تھے تو ان کا ایجنڈا امن تھا اور اپنے پڑوسیوں ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا شروع کیے اور اسی جذبے سے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف بھی ہاتھ بڑھایا۔

عمران خان نے کہا انڈیا کی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا اور انھوں نے ہم پر الزام لگائے اور میں نے جواب میں انھیں بلوچستان میں انڈیا کی کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔

انھوں نے کہا انڈیا کو کہا گیا کہ یہ سب بھول کر آگے بڑھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کی وجہ ان کے بقول، شاید انتخابات کا ماحول تھا لیکن انتخابات کے دوران اور بعد میں بھی پاکستان مخالف جذبات کا اظہار ہوتا رہا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے ایک سے زیادہ بار اپنی تقریر میں کہا کہ خطرہ یہ ہے کہ کوئی شخص حالات سے متاثر ہو کر انتہا پسندی کی طرف جا کر کوئی کارروائی کر دے گا جس کا الزام پاکستان پر لگے گا۔

انھوں نے کہا کہ جب ایٹمی طاقتوں کے آمنے سامنے آنے کا امکان ہو تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مداخلت کرے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور 70 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔ انھوں نے کہا ان کی حکومت نے تمام ایسے گروپس کو ختم کیا۔


Friday, September 27, 2019

بحریہ یونیورسٹی کی طالبہ حلیمہ امین کی ہلاکت پر ساتھی طلبہ کا احتجاج۔




اسلام آباد میں واقع بحریہ یونیورسٹی میں ایک 23 سالہ طالبہ حلیمہ امین کی ہلاکت کے بعد طلبہ نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔

بحریہ یونیورسٹی کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے ریکٹر کا استعٰفی لیے بغیر احتجاج نہیں روکیں گے۔

احتجاج کرنے والے طلبہ نے بحریہ یونیورسٹی کے ریکٹر (پرنسپل) سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ کا رویہ پریشان کن ہے اور اس 'مجرمانہ غفلت' کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبہ کی ہلاکت سے متعلق تمام دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات کی جا رہی ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق بحریہ یونیورسٹی میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ حلیمہ امین جمعرات کی شام مبینہ طور پر کیمپس کی ایک زیرِتعمیر عمارت کی چوتھی منزل سے گر کر ہلاک ہوئیں۔

اس واقعے کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ جمعے کو نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد حلیمہ امین کو سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔

مرغزار پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں دی جانے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ طالبہ ’زیرِ تعمیر عمارت میں سیلفی بناتے ہوئے گر کر ہلاک ہوئیں‘۔

تاہم حلیمہ کے ساتھی طلبہ و طالبات اس موقف کی تردید کرتے ہیں اور ان کے ایک ہم جماعت علی نے بتایا 'کہا یہ جا رہا ہے کہ حلیمہ سیلفی لے رہی تھیں جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ یہ سچ نہیں ہے۔ وہ وہاں سیلفی لینے نہیں، اپنی کلاس شروع ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔'

ان کا دعویٰ ہے کہ 'حلیمہ جس کلاس سے باہر آ رہی تھیں وہاں دروازے اور زمین کے بیچ موجود خلا کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جسے انتظامیہ نے بوریاں بچھا کر ڈھانپ دیا تھا۔ نتیجتاً حلیمہ کا پیر اس پر لگا اور وہ اپنا توازن کھو کر نیچے گِر گئیں۔'

یونیورسٹی کے طلبا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس واقعے کے بعد بنائی جانے والی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور الزام لگایا ہے کہ 'حلیمہ کے ہسپتال جانے کے فوراً بعد اس جگہ پر صفائی شروع کر دی گئی اور اس سے پہلے مذکورہ مقام پر طلبہ و طالبات کو متنبہ کرنے کے لیے کوئی بورڈ یا پیغام موجود نہیں تھا۔'

یونیورسٹی انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

بحریہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر ہی اپنا ایک بیان پوسٹ کیا ہے جس میں طالبہ کی ہلاکت پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’حلیمہ ایک قابل طالبہ تھیں اور ان کی خودکشی اور اس کے علاوہ میڈیا پر چلنے والی تمام منفی باتیں بے بنیاد ہیں۔‘

یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے کے تمام پہلؤوں کی تحققات کے لیے اعلیٰ سطح کی انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے جسے جلد ہی تمام متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

انتظامیہ کے مطابق وہ زیرِ تعمیر عمارت یونیورسٹی میں بڑھتے ہوئے طلبہ کی تعداد کو سنبھالنے کے لیے بنائی جارہی ہے۔ اس وقت اس چار منزلہ عمارت کی دو منزلوں پر کلاسیں دی جاتی ہیں جبکہ دیگر دو منزلوں پر اب بھی کام جاری ہے۔

مرغزار پولیس کے اہلکار کے مطابق انھیں یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے یہ کہہ کر جائے وقوع پر جانے سے روک دیا گیا کہ انتظامیہ اس معاملے کی تفتیش کر کے پولیس کو خود رپورٹ بھیجے گی۔

ہسپتال کے عملے نے کیا دیکھا؟

اس واقعے کے بعد حلیمہ امین کو زخمی حالت میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لے جایا گیا تھا۔

ہسپتال کے عملے کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’یونیورسٹی کے طلبہ ایک لڑکی کو سٹریچر پر لے کر آئے اور ان کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی موجود تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حلیمہ کے ہاتھ اور پاؤں پر کئی جگہ فریکچر تھے جبکہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حلیمہ کی موت دوپہر ساڑھے چار بجے ہوئی جس کے بعد جو لوگ ان کو لے کر آئے تھے، وہی ان کی لاش لے کر ہسپتال سے چلے گئے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس معاملے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں یونیورسٹی انتظامیہ، ہسپتال کے عملے اور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ 

انھوں نے کہا کہ 'اس عمارت میں طلبہ کو تنبیہ کرنے کے لیے بورڈ کیوں نہیں لگائے گئے؟ اس سے زیادہ پریشان کن رویہ یونیورسٹی انتظامیہ کا اس واقعے کے بعد دیکھنے میں آرہا ہے۔'

انھوں نے کہا کہ جب حلیمہ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تو پھر وہاں سے بغیر ان کے والدین کو مطلع کیے دوسری جگہ، یعنی سی ایم ایچ، کیوں منتقل کیا گیا۔

شیریں مزاری نے کہا ہے کہ 'یہ انتظامیہ کی ایک مجرمانہ غفلت ہے جس کی صحیح طریقے سے تفتیش ہونی چاہیے۔'

انھوں نے اس بارے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت برائے تعلیم کو پابند کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔

Monday, September 23, 2019

تقسیم ہند: کیا انڈیا سے آئے جونا گڑھ کے رہائشیوں کو پاکستان کی شہریت مل سکتی ہے؟




پير کے روز سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شمس الدین عباسی پر مشتمل ڈویزن بینچ کے روبرو ایک ایسی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں جونا گڑھ کے ایک رہائشی نے پاکستان کی شہریت نہ ملنے کی شکایت کی۔


درخواست گزار چھوٹو میاں کے مطابق ان کا چار افراد پر مشتمل خاندان سنہ 2007 میں پاکستان منتقل ہوا تھا تاہم انھیں پاکستان کی شہریت نہیں دی گئی۔

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان سے الحاق کیا تھا لہذا جونا گڑھ کے رہائشی پاکستان کے شہری ہیں۔

تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میں ایسی کئی ریاستیں تھیں جہاں نوابوں کی حکومتیں تھیں۔ ایسی ہی ایک ریاست گجرات کے جنوب مغربی ساحلی خطے میں واقع جونا گڑھ تھی۔

اس ریاست کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی لیکن ریاست کے نواب نے پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ آزادی کے چند مہینے بعد اس ریاست کو باضابطہ طور پر انڈیا میں ضم کر لیا گیا تھا۔

تو اب ریاست جونا گڑھ کے شہریوں کی حیثیت کیا ہے، اور کیا انھیں پاکستان کی شہریت دی جاسکتی ہے؟

سندھ ہائی کورٹ نے اس سارے معاملے پر حکومتِ پاکستان سے مؤقف طلب کر لیا ہے۔

چھوٹو میاں کے وکیل ایڈووکیٹ سید سکندر نے بی بی سی کو بتایا کہ قیام پاکستان سے جونا گڑھ کے لوگ پاکستان منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست پاکستان انھیں شہریت دینے کی پابند ہے لیکن کچھ عرصے سے چونکہ یہ سلسلہ رک گیا تھا، اس لیے حکام کو معلوم نہیں۔‘

’نہ سرکاری وکیل کو یہ معلوم ہے کہ نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کیا تھا اور نہ جج صاحبان کو۔ اس لیے عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے مؤقف طلب کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔‘

ایڈووکیٹ سید سکندر کے مطابق جونا گڑھ پر قیام پاکستان کے دو ماہ کے بعد انڈیا نے قبضہ کرلیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کر رکھا ہے۔

اس بارے میں انھوں نے آئین کے آرٹیکل 2 ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دستور پاکستان بھی جونا گڑھ کے شہریوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیتا ہے۔

دستور پاکستان کی اس شق کے تحت یہ تب لاگو ہو گا جب ایسی ریاستیں اور علاقے جو الحاق کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے پاکستان میں شامل ہیں یا ہو جائیں۔

جبکہ اگلی شق میں مجلس شوریٰ بذریعہ قانون وفاق میں نئی ریاستوں یا علاقوں کو اس شرط پر شامل کر سکتی ہے جن کو وہ مناسب سمجھے۔ تاہم اس سے پہلے والی شق میں پاکستان کی جغرافیائی حدود خیبرپختونخواہ، بلوچستان، سندھ اور پنجاب پر مشتمل قرار دی گئی ہیں۔

جونا گڑھ میں کیا ہوا تھا؟

آئیں اب تھوڑا ماضی کو یاد کر لیتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے برصغیر کی تقسیم سے قبل 262 ریاستوں اور راجوڑوں کو پاکستان، انڈیا یا آزادانہ حیثیت میں رہنے کا حق دیا تھا۔ ان ریاستوں میں جونا گڑھ کی ریاست بھی شامل تھی جس کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔

ریاست جونا گڑھ انڈین گجرات کے کاٹھیاواڑ ریجن میں واقع ہے۔ یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر پر مشتمل تھی۔ اس کی زمین سرسبز جبکہ ایک حصہ بحیرہ عرب سے ملتا تھا۔

اس ریاست میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی جبکہ حکمران مسلمان خاندان تھا۔

پاکستان کے ساتھ الحاق:

تقسیم ہند کے دوران جونا گڑھ کے نواب محمد مہابت خانجی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور 15 ستمبر 1947 کو پاکستان نے سرکاری گزیٹیئر بھی جاری کیا۔ تاہم اس ریاست کی پاکستان سے کہیں سے بھی سرحدیں نہیں ملتی تھیں۔

اس فیصلے پر مقامی لوگوں نے بغاوت کی جس کی بنیاد پر انڈین فورسز جونا گڑھ میں داخل ہو گئیں۔

پرنسیلی افیئرز کے مصنف یعقوب خان بنگش لکھتے ہیں کہ نواب آف جونا گڑھ کے دیوان سر شاہنواز بھٹو تھے۔

نواب نے اپنے دیوان کو کہا کہ اب وہ جو بہتر سمجھیں فیصلہ کریں۔ دیوان نے ریجنل کمشنر کو خط لکھا کہ آپ انتظامیہ کی معاونت کریں تاکہ خون خرابے اور جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے۔ اس طرح 9 نومبر 1947 کو انڈیا نے امن و امان کی بحالی کے نام پر ریاست کا کنٹرول سنبھال لیا۔

پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نہرو کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں سخت احتجاج کیا اور انڈیا کے اقدام کو پاکستان اور بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

جواہر لال نہرو نے انڈین فورسز ہٹانے سے انکار کیا اور عوام سے رجوع کرنے کا وعدوہ کیا۔ اس کے بعد ریفرنڈم منعقد کیا گیا اور انڈین فوج کے زیر انتظام رائے شماری میں 19 ہزار سے زائد ووٹ انڈیا کی حمایت میں جبکہ 91 ووٹ پاکستان کے حق میں کاسٹ کیے گئے۔


نواب آف جونا گڑھ کی پاکستان آمد:

انڈیا سے اس ریاست کے الحاق کے بعد نواب آف جونا گڑھ مہابت خانجی اہلخانہ، دیوان شاہنواز بھٹو اور اپنے پالتو کتوں کے ہمراہ بذریعہ جہاز پاکستان پہنچ گئے جبکہ ان کی ایک بیگم اور ایک بچہ وہاں ہی رہ گئے۔ لیکن وہ کبھی واپس نہ جا سکے۔

نواب مہابت خانجی 7 نومبر 1959 کو انتقال کر گئے۔ انھوں نے ورثا میں ایک بیوہ اور 17 لواحقین چھوڑے۔ ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے نواب دلاور خانجی کو جان نشین قرار دیا گیا اور اس کے بعد جہانگیر نواب قرار پائے۔

املاک پر اختلاف:

نواب آف جونا گڑھ کی املاک پر خاندان میں اختلافات سامنے آئے اور معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں جا پہنچا۔

سنہ 1963 میں کمشنر کراچی نے ریاست جونا گڑھ کی املاک کو دو حصوں میں تقیسم کیا جس میں سے ایک حصہ نواب دلاور کو دیا گیا جبکہ دوسرے ورثا میں نقد رقم تقیسم کرنے کا فیصلہ کیا۔

دیگر ورثا نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور شرعی قوانین کی روشنی میں اس کو ہائیکورٹ میں چیلینج کردیا جس کا فیصلہ ابھی تک رکا ہوا ہے۔

نواب آف جونا گڑھ کی املاک میں انڈین حکومت کے پاس 12 ملین روپے، حکومت پاکستان کے پاس تین ملین روپے، کراچی میں کروڑوں روپے مالیت کا جونا گڑھ ہاؤس، ملیر میں 16 ایکڑ پر مشتمل باغ، حیدرآباد میں روپ محل، ٹنڈو حیدر میں زرعی باغ، ٹنڈو محمد خان میں 500 ایکڑ زرعی زمین، زیوارت اور ہیرے جواہرات شامل ہیں۔

پرانے وعدے اور شکوے:

جونا گڑھ کے موجودہ نواب خانجی جہانگیر نے چند سال قبل ایک پریس کانفرنس میں شکوہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کو پاکستان آنے کے ساتھ شہریت مل گئی لیکن بعد میں آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے داخلے میں کوٹہ ہوتا تھا جس کو اب ختم کردیا گیا۔

نواب آف جونا گڑھ کو ڈیوٹی فری گاڑیوں اور الیکٹرونکس مصنوعات امپورٹ کی بھی اجازت تھی جس کو بعد میں واپس لے لیا گیا۔

مسیحی طلاق کے ریاستی قانون کی مخالفت کیوں؟



کافی عرصے کے بعد مسیحی سوشل ایشو پر لکھ رہی ہوں. ہر مسیحی رائیٹر یا نان رائیٹر کی وال پر یہی لکھا مل رہا ہے کہ بائبل کا قانون اٹل ہے سو اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بنانا چاہئے.

اب ریاست پاکستان مسیحی طلاق کے قانون کو ریاستی قانون کے تحت بنانا چاہ رہی ہے کیونکہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ مسیحی طلاق کا مرحلہ کتنا کھٹن ہے.

کلیسیا نے کلیسائی سطح پر اس مسلے کو نپٹنے یا کم کرنے کے لیے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا؟ سال میں شاید ایک بار کلیسیا میں اس موضوع پر کلام سنا دیا ہو گا کسی کلیسیا میں. اب جب ریاست نے اس مسلے میں دکھ اٹھانے والوں کے لیے قانون سازی کی تو سب اعتراض کرنے لگے ہیں.

میرا سوال یہ ہے کہ آپ عدالتی قوانین کو ٹھیک کرنے کی بجائے اپنا قبلہ کیوں درست نہیں کرتے؟ چرچز میں ایسی تعلیم کیوں نہیں دیتے کہ یہ نوبت ہی نہ آئے اور اگر آئے بھی تو چرچز میں ایسا نظام یعنی کونسلینگ وغیرہ کا نظام کیوں متعارف نہیں کرواتے؟ کیوں کلیسیا کو خاندان سمجھتے ہوئے اپنے مقدمے غیروں کو پاس لے کر جانے دیتے ہیں؟

مجھے ایوبی دور کی بنیادی جمہوریت کے کئی قانون بہت پسند ہیں اور انہیں میں سے ایک قانون طلاق کے بارے میں بھی تھا جس میں ضلح اور تحصیل کی سطح پر ایسے لوگوں کے لیے جو طلاق چاہتے تھے کونسلینگ کا نظام متعارف کروایا گیا تھا کہ مقدمہ عدالت میں جانے سے پہلے کونسلینگ کے مراحل میں سے گزرے. اور اس طرح بہت سے طلاق کے مقدمے یہی صلح پر حل ہو جایا کرتے تھے.

اب چرچ اپنی کمزوری پر واویلا مچانے کی بجائے اپنا تعلیم نظام درست کرے تو بہتر ہو گا. اور پلیز اس ریاستی قانون کو مسیحیت کے خلاف نہ سمجھیں. مسیحیت ایسے قانونوں کی وجہ سے ہرگز ختم ہونے والی نہیں.

تحرير:
شیزا نذیر



Friday, September 20, 2019

منارٹيز ڈے پاکستان

دل بہلانے کو، خيال اچھا ھے !


پاکستان ميں منارٹيز ڈے کی شروعات بانی پاکستان قائداعطم محمد علی جناح کے ۱۱ اگست ۱۹۴۷ کے خطاب سے ھوئی۔ منارٹيز ڈے کے حق اور مخالفت ميں مختلف مکتبہ فکر کی مختلف آرا و دلائل ھيں، قيام پاکستان سےقبل دو قومی نظريے کی تحريک اور مطالبہ زور پکڑ چکا تھا کہ برصغيرميں اب مسلمان اور ھندووں کا بوجہ مختلف مذھبی عقائد، رھن سھن اور رسم و رواج اکھٹے رھنا ممکن نہيں تو صورت حال کو مدنطر رکھتے ھوئے انگريز سامراج اس خطے کو دو حصوں،’’پاکستان اور بھارت‘‘ کی صورت ميں تقسيم کر گيا۔ جسکے نتيجے ميں انسانی تاريخ کی سب سے بڑی ھجرت ديکھنے ميں آئی، کيا کيا مظالم ھوئے ، کيا قيمت چکانی پڑی يہ الگ کہانی ھے۔ 

خير پاکستان بننے سے سے دو روز قبل بانی پاکستان نے اپنی شہرہ آفاق تقرير ميں پاکستان کی اساس و خدوخال بيان کرتے ھوئے فرمايا کہ مملکت پاکستان ميں معاشرتی اور سياسی طور پر ’’ مسلمان مسلمان نہيں ھونگے، ھندو ھندو نہيں ھونگے، مسيحی مسيحی  نہيں ھونگے‘‘ رياست مذھب اور عقيدے کی بنياد پر شہريوں سے کسی قسم کا امتيازی سلوکروا نہيں رکھے گی، مذھب کا رياستی امور سے کوئی سروکار نہيں ھوگا، يعنی کہ منزل مقصود تک پہنچ گئے، پاکستان بن گيا اب دو قومی نطريہ بھی دفن کر ديں۔

 ليکن بد قسمتی سے آج بھی ھم مذھب اور مسلک کے چکر سے باھر نہيں نکل سکے، ھم بحثيت پاکستانی ايک قوم نہيں بن پائے ‘ اکثيريت و اقليت کے بھنور ميں ايسے پھنسے کہ ھماری شناخت کہيں گم ھو کر رہ گئی ھے۔ اور اگر دو قومی نظريے کو ذندہ رکھنا اتنا ضروری ھےتو ايک بار بارڈر کھول کر لوگوں کو پرامن ھجرت کا موقع ديں، پھر ديکھيں آپکے ’’ دو قومی نطريے‘‘ کا کيا حشرھوتا ھے۔ 

سب محب وطن پاکستانيوں کو جشن آذادی مبارک !


تحرير:
لعزراللئہ رکھا

چوڑا بستی ، چھوڑ گيا.

چھاتی ٹھوک کے کہو کہ ھاں ميں چوڑا ھوں!



ھمارے ھاں ايک بستی ھے جس ميں اکثريت مسيحی خاکروب پيشہ و رھيں۔ چاليس سال قبل جب اندرون شہر سے نچلی ذات کے مسيحوں کو شہر سے باھر نکالا تو انہوں نے ريت کے ٹيلوں پر بسيرا کر ليا۔ يہ لوگ دن رات محنت مزدوری کرتے رھے ، گھر بنتے گرتے رھے اور آج يہ بستی شہر کے وسط ميں ھے۔ 

اس بستی کو آباد کرنے والے ذيادہ تر معمار دنيا چھوڑ چکے ھيں، اس بستی ميں ’’سينٹ ميری ‘‘ مشنری سکول ھے جس نے ان خاکروب لوگوں کے بچوں کو معاشرتی تعصبات ، اونچ نيچ، ذات پات سے بچايا۔ بچے پڑھ لکھ کر اب اعلی عہدوں تک پہنچ گے۔ اسی بستی کے ايک چوڑے نے نام بدل کر دور دراز کے علاقے ميں بھيک مانگی شروع کر دی۔ کسی نہ کسی طرح خبر بستی کت پہنچ گئی، لوگوں نے پنچائيت بلوائی اور بھيک مانگنے کی پاداش اس خاکروب (چوڑے) کا حقہ پانی بند کر ديا اور شرط رکھی کہ جب تک وہ بھيک مانگنا ترک نہيں کر دے گا کوئی شخص اُس کو اپنی شادی ميں نہيں بلواے گا۔ سوشل بائيکاٹ سے تنگ آکر وہ بستی چھوڑ گيا کيونکہ گداگری چھوڑنا شائد اُس کو مشکل لگا۔ وہ آسان زندگی کا عادی ھوگيا تھا۔
 
طاھر خليل سندھو صاحب (ايم پی اے ـ پنجاب اسمبلی) دل چھوٹا کيوں کرتے ھيں آپکو خاکروب (چوڑا) کہا گيا ھے، بھکاری تو نہيں!
 
ہر روز باعزت اعلی عہدوں پر فائز لوگ مذہبی تضحيک اور ذات پات کا نشانہ بنتے ھيں آپ چھاتی ٹھوک کرکہيں کہ، ''اگر رزق حلال (خاکروب) کی وجہ سے لوگوں کو چوڑا کہا جاتا ھے تو ھاں ميں چوڑا ھوں۔ ''


تحرير:
لعزر اللئہ رکھا ٴ ـ ايڈوکيٹ
 

پاکستان ميں مسيحی اور ديگرمذھبی اقليتوں کی صورتحال، ايک جائزھ ۱۹۴۷ تا ۲۰۱۸



پاکستان ميں مسيحی اور ديگر مزھبی اقليتوں کی موجودہ صورتحال نيز عوامل و وجوھات.

۱۱اگست ۱۹۴۷ کو بانی پاکستان قايداعظم محمد علی جناح نے آئين ساز اسمبلی سے خطاب ميں فرمايا,

’’آپ سب آزاد ھيں اپنے مندروں ميں جانے کے ليے، آپ سب آزاد ھيں اپنی مسجدوں ميں جانے کے ليے اور کسی بھی عبادت گاھ ميں جانے کے ليے۔ اس مملکت پاکستان ميں آپکا تعلق کسی بھی  مزھب، ذات يا عقيدے سے ھو مملکت کا اس سے کوئیسروکار نھيں۔‘‘

مزيد فرمايا,

’’ھم ايسے دنوں ميں شروع کر رھے ھيں جھاں کوئی امتيازی سلوک نھيں ھے، ايک کميونٹي اور دوسرے کے درميان کوئی فرق نھيں، کسی ذات يا مزھب کے درميان کوئی تعصب نھيں ھے۔ ھم اس بنيادی اصول کے ساۃ شروع کر رھے ھيں کہ ھم سب شھری ھيں، ايک رياست کے برابر کے شھری۔‘‘

قايداعظم کا يہ خطاب اْنکی پاکستان کے ليے بنيادی نظريے ، ترجيھات کو ظاھر کرتا ھے اور اْس وقت کی مسيحی سياسی قيادت نے قا يداعظم کے ان الفاظ پہ يقين کيا اورقيام پاکستان کی غيرمشروط حمايت کرتے ھوے اپنے فيصلہ کن ووٹ کاسٹ کيے۔  ليکن بد قسمتی سے قايداعظم کی وفات کے بعد پاکستان ميں بسنے والے  مسيحی اورديگر مذاھب کے افراد کی صورتحال ميں جوتبديلياں رونما ھوئی  اُنکی تفصيل کا مختصر جائزھ اُوپرشيعرکی گئی ويڈيوپيغام کی صورت ميں موجود ھے۔ 



مزيد جاننے کے لے ويڈيوديکھيں!