Thursday, November 14, 2019

کاش! ھم ریاست مدینہ کے شہری ھوتے




تحرير: لعزراللہ رکھا ۔ ايڈوکيٹ

آر پی او افس بہاولپور میں ایک بڑے فریم میں قرآن پاک کی ایک آیت آویزاں ھے جس کا اردو ترجمہ اور مہفوم یوں ھے(اگر کوٸی لفظ اوپر نیچے ھو جاۓ تو معاف کیجۓ گا) کہ حضرت مُحَمَّد ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم پر ظلم کیا تو قیامت کے روز آپ مُحَمَّد ﷺ اس ظالم مسلمان کے مقابلہ میں مظلوم غیر مسلم کی طرف کھڑے ھونگے،اسلام کا فلسفہ انصاف سمجھنے کے لیۓ مکمل غیر جانبدار اپروچ ضروری ھے کیونکہ ھم اسلام کو موجودہ دور کے واقعات،مولانا حضرات کی ذاتی تشریح اور اپنی ناگفتہ بہ حالت کے تناظر میں دیکھ کر ایک جانبدار سوچ کے حامل ھوجاتے ھیں جس سے ھم اسلامی تعلیمات کے اصل جوھر سے ناواقف رھتے ھیں موجودہ دور میں یہ سچ ھے کہ ھماری عدالتیں مذھبی کیسز میں جانبداری کا مظاھرہ کرتی ھیں،مذھبی اور حساس نوعیت کے کسیز پر جج کے مذہبی جذبات غالب رھتے ھیں۔

حکومت اور ادارے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز کرتے ھیں اقلیتوں کے قیمتی ادارے چھین لیۓ جاتے ھیں، جرم ثابت ھونے سے قبل ھی ملزم قتل کر دیے جاتے ھیں نابالغ بچیوں کو مذھب کی بھینٹ چڑھا کر ھوس پرستی کی جاتی ھے غرضیکہ مذھب اور مسلک کے نام پر عجیب و غریب قسم کے فتوے اور فیصلے ھوتے ھیں جن کا اصل اسلام سے کوٸی تعلق نہیں ھے مدینہ طرز کی ریاست میں قاضی حاکم وقت کے خلاف فیصلے دیتے نظر آتے ھیں

 حضور پاکﷺ یہودی (غیر مسلم) بچی کا سر ڈھانپتے نظر آتے ھیں،قاضی کی عدالت میں مسلمان کے مقابلے میں غیر مسلم مقدمہ جیتتے نظر آتے ھیں۔ جرم ثابت کرنے کے لیے کم از کم دو متقی اور پرھیز گار غیر جانبدار گواھان ضروری ھیں، جرم ثابت ھونے سے قبل کسی کو قتل نہیں کیا جاۓ گا جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا پوری انسانیت کو قتل کیا ،غیر مسلم شہریوں کے عقائد، مذہبی مقامات کے تحفظ کا وعدہ نظر آتا ھے ،معاھدہ سینٹ کیتھراٸن نظر آتا ھے جس پر حضور ﷺ اپنے دست مبارک کی مہر کرتے ھیں کہ تاقیامت مسلمان اس معاہدہ کی پاسداری کریں گے ۔انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے تھے آج ایک غریب بے بس اور مجبور بچو رام کے بارہ سالہ بیٹے موھن رام کو جبری عبدالرحمنٰ بنا دیا جاتا ھے اور کوٸی عدالت اس غریب کی فریاد سننے اور انصاف کرنے کو تیار نہیں سب کسی نہ کسی مصلحت کا شکار ھیں عدالتیں بھی اور حکومتیں بھی ۔مدینہ طرز کی ریاست قاٸم کرنا بذدلوں اور مصلحت پسندوں کے بس کی بات نہیں،ریاست مدینہ کے تمام شہریوں کو بلاتفریق خالص انصاف میسر تھا، کاش ھم بھی بحثیت غیر مسلم مسیحی ریاست مدینہ کے شہری ھوتے،تاکہ ھماری عزت، جان مال اور ادارے بھی محفوظ ھوتے.



يہ بھی پڑھيئے: